پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے حالیہ انٹرویو کے بعد حکومت میں شامل جماعتوں اور بعض مقامی ذرائع ابلاغ میں الزامات عائد کیے جا رہے ہیں کہ عمران خان اقتدار سے باہر ہونے کے بعد پاکستان کے تقسیم ہونے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔
عمران خان کا انٹرویو مقامی ٹی وی چینل 'بول نیوز' پر بدھ کی شب نشر ہوا تھا۔ انٹرویو کے دوران میزبان سمیع ابراہیم نے سوال کیا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ آپ کے ساتھ تعاون نہیں کرتی تو آپ حکومت میں نہیں آ سکتے ، اس صورتِ میں آپ کی مستقبل کی حکمتِ عملی کیا ہے؟
اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ انہوں نے دنیا کی ہر چیز دیکھ لی ہے اور ساڑھے تین برس وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بھی فائز رہے البتہ یہ اصل میں پاکستان اور اسٹیبشلمنٹ کا مسئلہ ہے۔
سابق وزیرِ اعظم نے موجودہ حکومت اور فوج کے تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ درست فیصلے نہیں کرے گی تو فوج سب سے پہلے تباہ ہو گی۔ کیوں کہ ملک دیوالیہ ہو گا۔ ان کے مطابق اگر پاکستان دیوالیہ ہو جاتا ہے تو سب سے زیادہ نقصان فوج کو ہوگا جس کے بعد پاکستان سے وہ رعایت لی جائے گی جو یو کرین سے لی گئی تھی اور پاکستان کے جوہری ہتھیار لے لیے جائیں گے۔
انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ سب سے بڑا مسئلہ انہیں یہ ہے کہ پاکستان واحد مسلمان ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں جب وہ ہتھیار چلے جائیں گے تو پھر کیا ہو گا؟
عمران خان نے یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا کہ وہ آج کہتے ہیں کہ پاکستان کے تین حصے ہوں گے۔ ان کے بقول "آپ بھارت کے تھنک ٹینک میں دیکھ لیں، باہر بلوچستان کو علیحدہ کرنے کے منصوبے بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت صحیح فیصلے نہیں کیے جائیں گے تو ملک خودکشی کرنے کی طرف جا رہا ہے اور میں اس لیے زور لگا رہا ہوں۔ "
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما عمران خان کے انٹرویو کا دفاع کر رہے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ سابق وزیرِ اعظم نے مستقبل کے خدشات کی نشان دہی کی ہے جب کہ حکومت میں موجود جماعتیں عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں کہ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد وہ ملک ٹوٹنے کی باتیں کرنے لگے ہیں۔
عمران خان کے انٹرویو پر تنقید کرتے ہوئے وزیرِ اعظم شہباز شریف انہیں کسی بھی سرکاری عہدے کے لیے غیر موزوں قرار دیا اور کہا کہ عمران خان ملک کو دھمکیاں رہے ہیں۔ اگر کسی کو ثبوت چاہیے کہ عمران خان پبلک آفس کے لیے موزوں نہیں ہیں تو وہ ان کا حالیہ انٹرویو دیکھ لے۔
سابق وزیرِ اعظم کو متنبہ کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ "آپ اپنی سیاست کریں لیکن پاکستان کی تقسیم سے متعلق بیان بازی کر کے اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔"
مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مرکزی حکومت میں اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سابق صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے سابق وزیرِ اعظم کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے کارکنوں کو ہدایت کی کہ عمران خان کے خلاف گلی گلی احتجاج کریں۔
پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر سابق صدر زرداری کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اس ملک کے تین ٹکڑے کرنے کی خواہش ہمارے اور ہماری نسلوں کے جیتے جی پوری نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی پاکستانی اس ملک کے ٹکڑے کرنے کی بات نہیں کر سکتا۔ یہ زبان ایک پاکستانی کی نہیں بلکہ مودی کی ہے۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص اقتدار سے کیا محروم ہوا فوج کی تباہی اور وطن کی سالمیت پر حملہ آور ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کی 75 سالہ تاریخ میں کئی بحران آئے مگر کسی نے وطن ٹوٹنے یا فوج کی تباہی کی بات نہیں کی۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا ملک کی سلامتی اور فوج کا وجود عمران خان کے اقتدار سے مشروط ہے؟
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ عمران خان کو جواب دہ ہونا ہوگا۔
تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے عمران خان کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جائز طور پر ان خطرات کی نشان دہی کی جو معاشی تباہی کی صورت میں پاکستان کو درپیش ہوں گے۔
مقامی ذرائع ابلاغ میں بھی عمران خان کے ملک ٹوٹنے سے متعلق بیان کو مختلف انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔
نجی ٹیلی ویژن چینل ’جیو نیوز‘ نے جمعرات کی صبح پروگرام کے دوران عمران خان کے بیان سے متعلق اسکرین پر لکھا کہ "اقتدار سے باہر عمران خان پاکستان ٹوٹنے کی باتیں کرنے لگے" جب کہ پروگرام کے دوران سابق وزیرِ اعظم کے انٹرویو کا کلپ بھی چلایا گیا تھا جس کے بعد مختلف مبصرین نے اس پر اپنے تجزیے پیش کیے۔
صحافی عامر ضیا نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ بعض نیوز چینلز پر عمران خان کے انٹرویو کی کوریج دیکھ کر وہ حیران ہیں۔ ان کے بقول سابق وزیرِ اعظم نے پاکستان کو تقسیم کرنے والے دشمن قوتوں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں پر روشنی ڈالی ہے۔
عامر ضیا نے مزید لکھا کہ سیاس و سباق سے ہٹ کر رپورٹنگ بد دیانتی ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے ایک خبر کا عکس شیئر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ اقتدار ختم ہونے کے بعد عمران خان حب الوطنی اور ذہنی صلاحیت کھو چکے ہیں۔
تجزیہ کار اور سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے خیال میں عمران خان دباؤ اور مایوسی کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ 25 مئی کے لانگ مارچ کے جو نتائج آئے ہیں ان سے وہ پریشان ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا سے گفتگو میں سہیل وڑائچ نے کہا کہ ایسے بیانات دینے سے عمران خان اداروں اور اسٹیبلشمنٹ سے دور ہوتے جائیں گے، جو ان کی سیاست کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔
انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اگر مصالحت نہ ہوئی تو حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ اداروں کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو ساتھ بٹھا کر معاملات کو حل کرے اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ عمران خان اپنے اقتدار جانے پر ملک ٹوٹنے کی بات کر رہے ہیں جس پر ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ بھی بن سکتا ہے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ عمران خان نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام، فوج کو کمزور کرنے اور ملک ٹوٹنے کی بات کی اور یہ سب باتیں بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔
امان اللہ کنرانی نے الزام لگایا کہ عمران خان کے دورِ اقتدار کے دوران اسپیکر کے ذریعے آئین شکنی، صدر کے ذریعے اسمبلیاں توڑنا اور پنجاب میں حکومت تحلیل کرنا بھی آئین شکنی کے زمرے میں آتا ہے۔