پاکستان نے صحافیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم "رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز" کے اُس بیان کو مسترد کیا ہے کہ حکومت صحافیوں اور ان کے اداروں کے تحفظ کے لیے کافی اقدام کرنے میں ناکام رہی ہے۔
’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈز‘ نے اپنے ایک تازہ بیان میں حالیہ دنوں میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں ذرائع ابلاغ کے دفاتر پر ہونے والے حملوں کے تناظر میں پاکستانی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی حکومت کے ترجمان سینیٹر پرویز رشید کا کہنا ہے حکومت صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے اور ایسے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں جس میں صحافت سے وابستہ لوگوں کو اپنی ذمہ داریاں پیشہ وارانہ انداز میں بلا خوف خطر ادا کرنے کے لیے ساز گار ماحول فراہم کیا جا سکے۔
ان کے بقول چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی خط ارسال کیا جا چکا ہے جس میں میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کی سلامتی کے لیے تسلی بخش اقدام کرنے کا کہا گیا ہے۔
بین الاقوامی تنظیم کے ایشیا پیسیفک ڈیسک کے ڈائریکٹر بنجمن اسماعیل نے حالیہ ہفتوں کے دوران پنجاب کے مختلف شہروں اور کراچی میں میڈیا ہاؤسز اور ان سے وابستہ افراد پر حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "ہم عہدیداروں کی طرف سے کارروائی نہ کرنے کی مذمت کرتے ہیں، یہ ذرائع ابلاغ کے تحفظ کے لیے سیاسی عزم کی مکمل عدم دستیابی کو ظاہر کرتا ہے۔"
ان حملوں میں موٹرسائیکل سوار نامعلوم افراد مختلف میڈیا ہاؤسز کے دفاتر پر دستی بم پھینک کر فرار ہوتے رہے ہیں جن میں سے اب تک کسی کا بھی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ بعض حملوں کے دوران جائے وقوع سے ایسے پرچے بھی ملے جن میں مبینہ طور پر داعش کی طرف سے دھمکی تحریر تھی اور حملہ آوروں کے بقول ذرائع ابلاغ کو "غیرجانبدار ہوئے حق اور سچ" پر مبنی کام کرنا چاہیئے اور ان کے موقف کو پیش کرنا چاہیے۔
گزشتہ سال دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے طالبان کے مہلک حملے کے بعد جہاں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں تیزی آئی وہیں ذرائع ابلاغ کو بھی ہدایت کی گئی کہ وہ دہشت گردوں کے بیانیے کو نشر اور جاری نہ کریں۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اپنے بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ صحافیوں اور ان کے اداروں کے تحفظ کے لیے مزید وسائل مہیا کرے اور ان اداروں کے لیے سکیورٹی کا درکار نظام فراہم کرے۔
رواں ہفتے ہی پنجاب پولیس کے سربراہ کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ تمام میڈیا ہاؤسز کو سکیورٹی کے ایسے ہی انتظامات کرنے کا کہا گیا ہے جیسے کہ پشاور حملے کے بعد اسکولوں کے لیے وضع کیے گئے تھے۔ ان میں کلوز سرکٹ کیمروں کی تنصیب کے علاوہ ایمرجنسی الرٹ سسٹم کی تنصیب بھی شامل ہے جس کی وجہ سے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی فوری اطلاع مقامی پولیس اسٹیشن کو مل جائے اور متعلقہ سکیورٹی ادارے اس پر کارروائی کر سکیں۔
پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جنہیں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔
حکومت کا موقف ہے کہ دہشت گردی نے جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو متاثر کیا ہے وہیں ملک میں صحافتی برادری کو بھی ایسے ہی خطرات کا سامنا ہے لیکن ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے صحافتی اداروں اور تنظیموں سے مشاورت کے بعد اقدام کیے جا رہے ہیں۔
مقامی صحافتی تنظیمیں یہ کہتی آئی ہیں کہ پاکستان میں صحافی دو دھاری تلوار پر چل رہے ہیں کیونکہ جہاں انھیں ایک طرف دہشت گردوں اور انتہا پسندوں سے خطرات لاحق ہیں وہیں انھیں اپنے فرائض کی پیشہ وارانہ انداز میں ادائیگی کے دوران ریاستی اداروں کی طرف سے بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔