پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمان کی عمارت کے قریب صحافیوں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے میڈیا ہاوسز کے خلاف تشدد کے حالیہ واقعات کے خلاف مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو تحفظ کی فراہمی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور ان واقعات کے ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
اتوار کو کوہاٹ کے قریب نا معلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ایک مقامیصحافی حفیظ الرحمن کو ہلاک کر دیا تھا جو کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران میڈیا سے وابستہ افراد پر پانچواں حملہ ہے۔
اس سے قبل ٹانک کے علاقے میں سینیئر صحافی زمان محسود کو بھی فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا جس کی ذمہ داری بعد میں طالبان عسکریت پسندوں نے قبول کی تھی۔
گزشتہ جمعہ کو فیصل آباد میں ایک نجی ٹی وی چینل کے مقامی دفتر پر نا معلوم افراد نے دستی بم سے حملہ کیا تھا جس سے چینل کے تین اہلکار زخمی ہو گئے تھے اور عمارت کو جزوی نقصان پہنچا۔
اطلاعات کے مطابق جائے واقعہ پر دولت اسلامیہ خراسان نامی ایک تنظیم کے پمفلٹ بھی پائے گئے جس میں اس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی میں جہاں عام شہریوں کے لیے سکیورٹی کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے وہیں صحافیوں کو بھی اپنے پیشہ وارنہ فرائض کی ادائیگی میں خطرات کا سامنا رہاہے۔
گزشتہ سال جون میں شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں سرگرم عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کے نام سے بھر پور سکیورٹی آپریشن شروع کیا گیا جس کے بعد ملک بھر میں عسکری کارروائیاں قابل ذکر کمی واقع ہوئی ہے تاہم صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کو اب بھی خطرات کا سامنا ہے۔
پیر کو اسلام آباد کے ہونے والے مظاہرے میں شریک پاکستان یونین آف جرنلسٹس کے ایک دھڑے کے صدر افضل بٹ نے وائس امریکہ سے گفتگو میں صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس ضمن میں فوری اقدامات کرے۔
پاکستان کے وزیر اطلاعات نے مظاہرے میں شریک افراد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح ملک میں زندگی کے دوسرے طبقات کو دہشت گردی کے کارروائیوں میں نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں صحافی بھی اس لہر میں ہدف بن رہے ہیں۔
’’دہشت گردی میں ملوث جو بھی مجرم ہیں وہ انصاف کے حوالے ہوں گے اور انصاف کی رسی سے وہ دیر تک نہیں بچ سکیں گے اور یہ رسی ان کے گلے تک پہنچے گی۔‘‘
پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک تصور کیے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 2001ء کے بعد سے اب تک 70 سے زائد صحافیوں کو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ہلاک کیا جا چکا ہے۔