عسکریت پسندی ترک کرنے والوں کو 'پناہ' دی جائے گی

پاکستانی فوجی شمالی وزیرستان میں گشت کررہے ہیں (فائل فوٹو)

فوج کے ترجمان کے مطابق شمالی وزیرستان کے مرکزی علاقے میران شاہ اور میر علی سمیت دیگر حصوں میں شدت پسندوں کی کمین گاہوں کے گرد حصار کو مزید مضبوط کیا گیا ہے۔
شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی بدستور تیسرے دن بھی جاری رہی جس میں فوج کے ترجمان کے مطابق لڑاکا طیاروں کی بمباری سے عسکریت پسندوں کے چھ ٹھکانوں کو تباہ اور غیر ملکیوں سمیت 25 شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ نواز شریف انتظامیہ کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندی ترک کرنے والے جنگجوؤں سے اب بھی غیرعسکری طریقوں سے پیش آنے کی گنجائش موجود ہے۔

وزیراعظم نے پارلیمان سے خطاب میں بھی اعلان کیا تھا کہ ایسے لوگوں کے لیے قبائلی علاقے میں خصوصی مراکز قائم کیے جائیں گے۔

شدت پسندی ترک کرنے والے افراد سوات میں ایک بحالی مرکز میں کام میں مصروف (فائل فوٹو)


وائس آف امریکہ سے منگل کو گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی نے بتایا کہ ان مراکز میں پناہ اور دیگر روزمرہ کی سہولتیں مہیا کی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ حکومت صرف طاقت کے استعمال پر یقین نہیں رکھتی بلکہ فوجی کارروائی انہیں کے خلاف ہے جو ان کے مطابق دوسری زبان نہیں سمجھتے۔

’’گزشتہ چند دنوں میں خود طالبان میں بہت سی دراڑیں پیدا ہوئی ہیں اور ایک بڑے گروپ نے بھی علیحدگی کا اعلان کیا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اس جنگ میں اس کے دست و بازو نہیں ہیں۔ پھر طالبان شوریٰ میں بھی کچھ اس جنگ آزمائی کے خلاف ہیں۔ تو وہ آسکتے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ جنگجو یا ان کے رہنماؤں سے متعلق اس پروگرام میں کوئی تفریق نہیں۔ کوئی بھی ان مراکز میں متعلقہ عسکری کمانڈرز یا مقامی انتظامیہ کے افسران سے رجوع کر سکتے ہیں۔

پشاور میں کور ہیڈکوارٹرز میں پیر کو ضرب عضب نامی آپریشن کی بریفنگ کے دوران فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے زور دیا تھا کہ افغان سرحد پر واقع شمالی وزیرستان میں قائم پناہ گاہوں میں کسی امتیاز کے بغیر دہشت گردوں کو ختم کیا جائے۔

عرفان صدیقی نے ان امکانات کو رد کیا کہ دہشت گردی ترک کرنے والے جنگجو ان مراکز میں آنے کے کچھ عرصے کے بعد دوبارہ عسکریت پسندی کا راستہ اپنا سکتے ہیں۔

’’لال مسجد کا آپریشن محدود سطح کا تھا اور وسیع سطح پر دہشت گردی کی تنظیمیں تھیں، کارروائیاں ہورہی تھیں۔ تو ان (شدت پسندوں) کے پاس راستے موجود تھے بڑی سطح پر جذب ہونے کے۔ لیکن اب بڑی سطح پر کاوشیں ہورہی ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ ان (عسکریت پسندوں) کے پاس کوئی اور گنجائش رہے گی۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مراکز خونریز دہشت گردی کے پاکستانی معاشرے سے موثر و فعال انداز میں خاتمے کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔

سیکورٹی امور کے ماہر عامر رانا کا اس بارے میں کہنا تھا ’’پہلے ابتدائی تفتیش ہوگی اور پھر پروفائیلنگ کا عمل ہوگا۔ جو براہ راست دہشت گردی میں ملوث ہوگا تو اس کو تو نہیں چھوڑا جائے گا اور ایسے لوگ آتے بھی نہیں۔ جو آتے ہیں انہیں بحالی کے ایک عمل سے گزارا جاتا ہے اور جب وہ نکلتے ہیں تو معاشرے میں انتہا پسندی کے خلاف اور جوابی دلیل کا ایک عمل شروع ہوتا ہے۔‘‘

فوج کی طرف سے شمالی وزیرستان میں کارروائی حکومت کی طالبان سے مذاکرات کی کوششوں کی ناکامی کے بعد شروع کی گئی جس کی بڑے پیمانے پر سیاسی اور عوامی سطح پر حمایت کی جاری ہے۔

فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن منصوبے کے تحت آگے بڑھ رہا اور شمالی وزیرستان کے مرکزی علاقے میران شاہ اور میر علی سمیت دیگر حصوں میں شدت پسندوں کی کمین گاہوں کے گرد حصار کو مزید مضبوط کردیا گیا ہے اور مقامی آبادی کو مکمل شناخت کے بعد وہاں سے نکالا جارہا ہے۔

آپریشن شروع کرنے کے بعد پاکستان نے ہمسایہ ملک افغانستان سے بھی سرحد پر سیکورٹی بڑھانے کا کہا تھا تاکہ کارروائی سے فرار ہونے والے عسکریت پسندوں کو سرحد پار کرنے سے روکا جائے۔