بحر ہند میں سونامی کی صورت میں کراچی ایٹمی ری ایکٹر کو خطرہ: مبارک

بحر ہند میں سونامی کی صورت میں کراچی ایٹمی ری ایکٹر کو خطرہ: مبارک

پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکڑ ثمر مبارک مند کا کہنا ہے کہ جاپان میں زلزلے اور سونامی سے فوکو شیما میں نیوکلیئر پلانٹ کا بحران سنگین ہوتا جارہا ہے اور اُن کے بقول صورت حال کسی حد تک بے قابو ہو گئی ہے۔ وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی انٹرویو میں اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف کراچی کی جوہری تنصیب ساحلی علاقے کے قریب ہے جو چالیس سال قبل تعمیر کی گئی تھی اور اگر بحرہ ہند میں جاپان طرز کے سونامی سے کسی ایٹمی ری ایکٹر کو خطرہ ہوسکتا ہے تو وہ 137میگاواٹ کا کراچی کا نیوکلیئر پاور پلانٹ ہے۔ اُن کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔

سوال: پاکستان میں بھی طاقتور زلزلے آتے رہتے ہیں تو یہاں جو جوہری پلانٹس ہیں آپ سمجھتے ہیں ان کو کوئی ایسا خطرہ درپیش ہوسکتا ہے؟

جواب :پاکستان میں صرف ایک ری ایکٹر ہے جو ساحل پر ہے جو کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ ہے اور وہ چالیس سال پرانا ری ایکٹر ہے اور اب سمجھ لیجئے کہ وہ بجلی بھی صرف ساٹھ فیصد ہی دے رہا ہے جو کہ ایک آدھ سال میں بند ہونے کے قریب ہوگا۔ تو اس پر تو سونامی ٹکرا سکتا ہے اگر بحرہند میں کوئی شدید زلزلہ آئے۔ لیکن جو باقی ری ایکٹرز ہیں وہ تو چشمہ کے مقام پر ہیں اور وہ تو زمین پر ہیں سمندر کے کنارے نہیں ہیں۔ وہاں صرف زلزلے کا ہی سوچا جاسکتا ہے کہ انھیں کوئی نقصان ہوسکتا ہے۔ اس کی تو بہت احتیاط سے اسٹڈی کرکے ایسی جگہ انھیں لگایا گیا ہے جہاں فالٹ زون نہیں اور جہاں زلزلے کا کوئی خدشہ نہیں ہے اور ان کے ڈیزائن میں یہ چیز شامل ہے کہ وہ شدید زلزلوں میں محفوظ رہ سکیں۔ ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے (IAEA)نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

سوال: یہ بتائیے فوکو شیما میں جوہری توانائی کے پلانٹ کے بارے میں اس وقت آپ کا کیا مشاہدہ ہے؟

جواب : اب تک جو اطلاعات سامنے آئی ہیں اُن کے مطابق چاروں ری ایکٹرز کے کولنگ سسٹم خراب ہیں اور وہ اس لیے خراب ہیں کہ پہلے جب سونامی آیا تو اس سے بجلی بند ہوگئی پھر ان کے ڈیزل جنریٹرز بھی تباہ ہوگئے۔ کولنگ سسٹم جب بند ہوجائے تو ری ایکٹر کا جو ’کور‘ ہے وہ گرم ہونا شروع ہوجاتا ہے اوریہ ری ایکٹرز بدستور گرم ہورہے ہیں جبکہ دو ری ایکٹرز کا ’کور‘ تو پہلے ہی پگھل چکا ہے۔ اس صورت میں کور کا اندرونی جوہری عمل قابو سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس کو پھر یہ سمجھ لیں کہ وہ اس طرح ہوتا ہے جیسا ایک چھوٹا سا ایٹم بم اور اس سے شدید قسم کی تابکاری نکلتی ہے جو’ کور‘ سے نکلتی ہے۔ یہ گیس کی شکل میں تو کم ہوتی ہے بلکہ گرد کے ذرات کی شکل میں زیادہ ہوتی ہے جیسے راکھ ہوتی ہے اور یہ ٹھوس فضلہ جس جس جگہ جائے گا، چاہے پانی میں مل جائے، زمین کی سطح پرپھیل جائے تو یہ بہت سارے علاقے کو بہت سالوں کے لیے ناکارہ بنا دے گا۔ ان علاقوں میں لوگوں کے جانے کی ممانعت ہوگی کیونکہ اس کا ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑسکتا ہے۔

ڈاکٹر ثمر مبارک مند

چونکہ ری ایکٹر اسٹیل کے ایک شیل کے اندر بند ہوتا ہے تو شیل کے ٹوٹنے کا امکان ہوتا ہے اگر وہ شیل پھٹ جاتا ہے تو پھر یہ ساری تابکاری باہر نکل آتی ہے اور یہ بالکل ایک ایٹمی دھماکے والی بات ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر ان کا جو ری ایکٹر نمبر تین ہے اس کا کور صرف یورینیم پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں پلوٹونیم کی بھی آمیزش ہے اور جو تابکاری پلوٹونیم سے نکلے گی وہ بہت زیادہ ہو گی اس سے جو یورینیم کے ری ایکٹر سے پیدا ہوگی۔ یہ زیادہ سنگین مسئلہ ہوگا۔ اس کا کور تو ابھی نہیں پھٹا مگر پہلے دو یورینیم کے کورز کو نقصان پہنچا ہے۔

سوال: اتنا ترقی یافتہ ملک ہونے کے باوجود جاپان نے جوہری پلانٹس لگاتے وقت اس چیز کو مدنظر کیوں نہیں رکھا؟

جواب: ری ایکٹر جب بھی لگایا جاتا ہے تو احتیاطی تدابیر اختیارکرنا ضروری ہوتی ہیں پوری دنیا میں اس چیز کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جہاں زلزلہ آنے کا خدشہ ہو تو اسے مدنظر رکھ کرساری حفاظتی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں اور اسے عالمی انسپکٹرز سے چیک کروایا جاتا ہے۔ جاپان نے بھی ایسا ہی کیا مگر ہوا یہ ہے کہ جہاں سونامی آیا اس جگہ کی انھوں نے کیلکولیشنز نہیں کی تھیں۔ ایک تو یہ ان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ تھا پھر سونامی بھی اتنا شدید تھا کہ اس کا بھی اندازہ نہیں تھا کسی کو کہ دس میٹر کی لہریں آجائیں گی۔ اب یہ دونوں اکٹھی ہوگئیں۔ زلزلے سے تو ایٹمی ری ایکٹر متاثر نہیں ہوئے بلکہ یہ سونامی کی وجہ سے ہوئے۔ انھیں سونامی کے لیے بھی احتیاطی تدابیر لینی چاہیئں تھیں۔ کیونکہ بحر الکاہل کے جزائر میں جن میں انڈونیشیا اور ہوائی کے جزیرے بھی شامل ہیں ان سب علاقوں میں آٹھ اور نو شدت کے زلزلے آتے رہتے ہیں ، تو ان کو اس سے بچنے کے لیے بھی احتیاطی تدابیر لینی چاہیئں تھیں اور شاید ایسا نہیں کیا گیا ۔