پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل راؤ قمر سلیمان نے کہا ہے کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہونا چاہتا اور وہ کم سے کم دفاعی صلاحیت کی اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن ان کے بقول قابل بھروسا دفاع کا تعین خطے کے بدلتے ہوئے حالات کرتے ہیں۔
پیر کو اسلام آباد میں جوہری مواد سے متعلق مجوزہ عالمی معاہدے کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ پاکستان ہمسایہ ملکوں کے ساتھ پُر امن تعلقات کا خواہاں ہے تاہم اس کے لیے جنوبی ایشیا میں رونما ہونے والی خطرناک تبدیلیوں کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔”اگر بھارت اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ جاری رکھتا ہے حتیٰ کہ اس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو، تو پاکستان اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔“
پاک فضائیہ کے سربراہ کے مطابق بھارت کا اپنی عسکری صلاحیت میں مسلسل اضافہ، اعلیٰ عہدے داروں کی طرف سے چین اور پاکستان سے بیک وقت جنگ کے بارے میں اشتعال انگیز بیانات بشمول جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکیاں، اور بھارتی فوج کی جارحانہ حکمت عملی خطے میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔
ایئر مارشل راؤ قمر سلیمان نے نیوکلیئر سپلائرگروپ کی جانب سے بھارت کے لیے خصوصی رعایت کے اعلان کو امتیازی اقدام قرار دیا جس نے امریکہ اور بھارت کے درمیان 2008ء میں طے پانے والے سول جوہری تعاون کے معاہدے کی راہ ہموار کی تھی۔
ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ اور جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے لیے انتہائی اہم قرار دیے جانے والے مجوزہ معاہدے ’فیزائل میٹیرئیل ٹریٹی‘ کا ذکر کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ پاکستان صرف ایسے معاہدے پر اتفاق کے بارے میں غور کر سکتا ہے جو غیر امتیازی اور نتیجہ خیزہو اور اس میں ہر ملک کے موجودہ جوہری ذخائر کو شامل کیا جائے۔
واشنگٹن میں قائم آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان کے پاس 70 سے 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں جب کہ بھارت میں ان کی تعداد لگ بھگ 100 ہے تاہم بھارت کو دستیاب ہتھیاروں میں استعمال کے قابل جوہری مواد کی مقدار پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔