اقلیتی امور کے وفاقی وزیر قتل

مقتول وفاقی وزیر شہباز بھٹی کی لاش کو اسلام آباد کے ایک اسپتال سے لے جایا جارہا ہے۔ 2 مارچ، 2011

اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پنجاب نے قبول کرلی ہے۔ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا کہ یہ حملہ کسی ایک فرد پر نہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کی رواداری اور احترام جیسی اقدار پر ہے جوکہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے ماننے والوں کو عزیز ہے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے اقلیتی اُمور شہباز بھٹی کو بظاہر القاعدہ اور طالبان سے منسلک افراد نے بدھ کی صبح اسلام آباد میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔

اقلیتی عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیرپر یہ قاتلانہ حملہ دارالحکومت کے سیکٹر آئی ایٹ تھری میں تقریباً ساڑھے دس بجے اْس وقت کیا گیا جب وہ اپنی والدہ کے گھر سے دفتر کے لیے روانہ ہوئے۔ پاکستانی اور عالمی خبررساں ایجنسیوں کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پنجاب نے قبول کرلی ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں نے واردات کے بعد جائے وقوع پر القائدہ اور تحریک طالبان کی جانب سے پمفلٹ بھی چھوڑے ہیں۔

اسلام آباد پولیس کے سربراہ واجد درانی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ایک گاڑی میں سوار چار حملہ آوروں نے شہباز بھٹی کی سرکاری گاڑی کا راستہ روکنے کے بعد باہر نکل کر اْن پر فائرنگ کر دی۔

شہباز بھٹی کی سرکاری گاڑی پر گولیوں کے نشان

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے مقتول وفاقی وزیر کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شہباز بھٹی کے قتل پرانہیں صدمہ اورسخت غصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملہ کسی ایک فرد پر نہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کی رواداری اور احترام جیسی اقدار پر ہے جوکہ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے ماننے والوں کو عزیز ہے۔

حملے کے وقت وفاقی وزیر عقبی سیٹ پر بیٹھے تھے اور گاڑی میں اْن کے علاوہ صرف ڈرائیور موجود تھا جو فائرنگ کے وقت آڑ لینے کی وجہ سے محفوظ رہا۔

شہباز بھٹی کو ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ اْن کی موت واقعہ ہو چکی ہے۔ ابتدائی معلومات کے مطابق وفاقی وزیر کو آٹھ گولیاں لگیں۔ تفتیش کاروں کو جائے وقوعہ سے 25 گولیوں کے خول ملے ہیں۔

وفاقی وزیر کو تحفظ ناموس رسالت ایکٹ میں اصلاحات کی حمایت کرنے پر انتہاپسند عناصر کی جانب سے جان سے مار دینے کی دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں اور اْنھوں نے کئی مرتبہ اپنی زندگی کو لاحق خطرات کا ذکر کیا تھا۔

واجد درانی کا کہنا تھا کہ شہباز بھٹی کو حکومت کی ہدایت پر پولیس کے محافظوں کے علاوہ نیم فوجی سکیورٹی فورس ’رینجرز‘ کے اہلکار بھی فراہم کیے گئے تھے تاہم بدھ کو حملے کے وقت یہ محافظ اْن کے ساتھ موجود نہیں تھے۔ اْنھوں نے بتایا کہ وفاقی وزیر کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کا کہنا ہے کہ شہباز بھٹی نے اْن کو ٹیلی فون پر دفتر میں رکنے کی ہدایت کی تھی اور تحقیقاتی ادارے اس فون کال کی حقیقت جاننے کی کوشش میں ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق حملہ آوروں نے جائے وقوعہ پر پیمفلٹس بھی چھوڑے جن میں ’تنظیم القاعدہ و تحریک طالبان پنجاب‘ سے منسوب بیان میں کہا گیا ہے کہ ہر ’ گستاخ رسول‘ کا یہی انجام ہوگا۔

سیاسی حلقوں کے علاوہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل تنظیموں نے شہباز بھٹی کے قتل کی پرزور مذمت کی ہے۔

وفاقی وزیر پر قاتلانہ حملے کے چند گھنٹوں بعد قومی اسمبلی سے خطاب میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ اسے واقعات کی روک تھام کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کی جائے۔ ”یہ جو اس قسم کی دہشت گردی کی باتیں ہو رہی ہیں، انتہا پسندی کی باتیں ہو رہی ہیں یہ ہمارے مذہب کے خلاف ہیں، ہمارے ملک کے وقار کے خلاف ہیں۔ ان سے پوری دنیا میں اسلام کے لیے رسوائی (کا سبب) بن رہی ہیں۔“

گذشتہ دو ماہ کے عرصے میں شہباز بھٹی دوسرے اہم سیاسی رہنما ہیں جنھیں بظاہر تحفظ ناموس رسالت ایکٹ میں اصلاحات کی حمایت کرنے پر قتل کیا گیا ہے۔

اس سے قبل 4 جنوری کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اُن کی حفاظت پر معمور پولیس کے ایک اہلکار نے اسلام آباد ہی میں گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا اور انھیں قتل کرنے والے اہلکار کا کہنا تھا کہ اس نے گورنر کو تحفظ ناموس رسالت ایکٹ میں ترمیم کے حق میں بیان دینے پر ہلاک کیا۔

سلمان تاثیر کو بھی اسلام آباد میں قتل کیا گیا تھا (فائل فوٹو)


اس واقعہ کے بعد سے پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیرا طلاعات شیری رحمن بھی منظر عام سے غائب ہیں ۔ اُنھوں نے ناموس رسالت ایکٹ میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ میں بل جمع کرایا تھا جس کے بعد اُنھیں بھی جان سے مار نے کی دھمکیں مل رہی تھی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ انصاف اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے والے سیاسی رہنماؤں کے خلاف تشدد سے ملکی و بین الاقوامی سطح پر پائے جانے والے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ماہر تعلیم اور تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کے مطابق دو اہم سیاسی رہنماؤں کے قتل سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔

توہین رسالت کا مرتکب ہونے والے افراد کے لیے موت کی سزا تجویز کرنے والا یہ قانون گذشتہ سال نومبر میں اُس وقت موضوع بحث بن گیا جب صوبہ پنجاب کی ایک ذیلی عدالت نے اس کے تحت ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنائی۔

اُس وقت کے صوبائی گورنر سلمان تاثیر نے ناصرف اس قانون کی مخالفت کی بلکہ 45 سالہ آسیہ بی بی کے لیے صدارتی معافی کا مطالبہ بھی کیا۔

انسانی حقوق کی علم بردار تنظیموں کا موقف ہے کہ تحفظ ناموس رسالت ایکٹ اقلیتوں کے خلاف ایک امتیازی قانون ہے جب کہ بااثر افراد اسے ذاتی دشمنیوں کا بدلہ لینے کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ اُن کا مطالبہ ہے کہ حکومت اور عدلیہ کو انتہاپسندی کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔

عالمی غیر سرکاری تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ کے پاکستان میں سینیئر عہدے دار علی دایان حسن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی نہیں اپنائی گئی تو ”پاکستان میں اس قسم کی لاقانونیت بڑھتی جائے گی، پاکستان میں اس قسم کی تنگ نظری بڑھتی جائے گی، اور یہ تنگ نظری ایسی ہے کہ یہ پاکستان کو آگ لگا رہی ہے اور لگا دے گی۔“

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی واضح الفاظ میں یہ بیان دے چکے ہیں کہ اْن کی حکومت توہین رسالت کا مرتکب ہونے والے افراد سے متعلق قانون میں کسی قسم کی تبدیلی کا ارادہ نہیں رکھتی۔

(وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے 2009 کے ایک انٹرویو میں)

http://www.youtube.com/embed/2AZABL4Y4tQ