رسائی کے لنکس

توہین رسالت کے جرم میں قید عیسائی شخص کی موت کا معمہ


قمر ڈیوڈ کی لاش کو منتقل کیا جا رہا ہے۔
قمر ڈیوڈ کی لاش کو منتقل کیا جا رہا ہے۔

قمر ڈیوڈ کو موبائل فون کے ذریعے توہین آمیر پیغامات بھیجنے کے جرم میں ایک ذیلی عدالت نے فروری 2010ء میں عمر قید (25 برس) کی سزاسنائی تھی۔ اُن کے وکیل پرویز چودھری نے بتایا کہ مقدمے کا مرکزی ملزم منور احمد نامی شخص تھا جس کے موبائل فون نمبر سے مختلف لوگوں کو یہ پیغامات موصول ہوئے۔ وکیل کے بقول عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران گواہوں نے حلفاً تسلیم کیا کہ پیغامات منور کے نمبر سے آئے تھے لیکن ایک پولیس افسر نے بیان دیا کہ تحقیقات کے مطابق گو کہ نمبر منور کا تھا لیکن پیغام بھیجنے والا قمر ڈیوڈ تھا۔

پاکستان میں تحفظ ناموس رسالت ایکٹ کے تحت عمر قید کی سزا پانے والے ایک عیسائی شخص کی جیل میں موت ایک معمہ بن گئی ہے۔

کراچی کی سنٹرل جیل کے عہدے داروں کے بقول اقلیتی عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ پاکستانی قمر ڈیوڈ کی موت منگل کو حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے ہوئی تاہم اُن کے وکیل پرویز چودھری اِسے قتل قرار دے رہے ہیں۔

بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز چودھری نے پولیس اور جیل حکام کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ”میرے خیال میں یہ طبعی موت نہیں تھی، کسی طریقے سے بھی اُسے ہلاک کیا گیا ہے۔“

تاہم قمر ڈیوڈ کے بنیادی پوسٹ مارٹم کے نتائج سے واقف ایک ڈاکٹر، جنھوں نے اپنا نام صرف حامد بتایا ، کا کہنا تھا کہ لاش پر تشدد کا کوئی ظاہری نشان موجود نہیں تھا۔ ”پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد عضا لیبارٹری بھیج دیے گئے ہیں جہاں تجربات کے ذریعے موت کی اصل وجہ کی تصدیق ہو جائے گی۔“

ڈاکٹر حامد کا کہنا تھا کہ حتمی رپورٹ کے اجرا میں عموماً ایک ہفتے کا وقت لگ جاتا ہے۔

قمر ڈیوڈ
قمر ڈیوڈ

اطلاعات کے مطابق قمر ڈیوڈ نے موت سے کچھ دیر قبل دل کی تکلیف کی شکایت کی تھی لیکن پرویز چودھری کا کہنا ہے کہ وہ اپنے موکل کو گذشتہ کئی سالوں سے جانتے تھے اور اس طویل عرصے کے دوران اُنھوں نے کبھی کسی طبی مرض میں مبتلا ہونے کا ذکر نہیں کیا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ قمر ڈیوڈ چار سال سے زائد عرصے سے زیر حراست تھے اور اُنھیں مختلف ذرائع سے مسلسل جان سے مار دیے جانے کی دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں۔

پرویز چودھری کے مطابق قمر ڈیوڈ نے 2009ء میں جیل سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو ایک خط بھی لکھا جس میں عدالت کو اِن دھمکیوں کے بارے میں مطلع کرتے ہوئے تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ”لیکن بد قسمتی سے (اس خط) کو نظر انداز کر دیا گیا۔“

قمر ڈیوڈ کو موبائل فون کے ذریعے توہین آمیر پیغامات بھیجنے کے جرم میں ایک ذیلی عدالت نے فروری 2010ء میں عمر قید (25 برس) کی سزاسنائی تھی جس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی داخل کی گئی۔

پرویز چودھری نے بتایا کہ مقدمے کا مرکزی ملزم منور احمد نامی شخص تھا جس کے موبائل فون نمبر سے مختلف لوگوں کو یہ پیغامات موصول ہوئے۔ وکیل کے بقول عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران گواہوں نے حلفاً تسلیم کیا کہ پیغامات منور کے نمبر سے آئے تھے لیکن ایک پولیس افسر نے بیان دیا کہ تحقیقات کے مطابق گو کہ نمبر منور کا تھا لیکن پیغام بھیجنے والا قمر ڈیوڈ تھا۔

پولیس افسر کے اس بیان کے بعد عدالت نے منور احمد کو مقدمے سے بری کر دیا جب کہ قمر ڈیوڈ کو عمر قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

پاکستان میں سرگرم انسانی حقوق کی تنظیمیں اور بعض سیاسی رہنما ایک عرصے سے تحفظ ناموس رسالت ایکٹ میں اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں کیوں کہ اُن کے بقول موجودہ صورت میں اسے اقلیتی برادری اور ذاتی دشمنوں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

تاہم مذہبی جماعتیں اور دیگر حلقے تحفظ ناموس رسالت ایکٹ کی بھرپور حمایت کرتے ہیں جس کے باعث اس میں اصلاحات کی حامی سیاسی قوتیں کو بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹانا پڑا ہے۔

اس قانون میں اصلاحات کی کھل کر حمایت کرنے کی وجہ سے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور وفاقی وزیر برائے اقلیتی اُمور شہباز بھٹی کو رواں سال دارالحکومت اسلام آباد میں قتل کیا جا چکا ہے۔

XS
SM
MD
LG