پاکستان اور بھارت کی جانب سے سفارتی عملہ 50 فی صد کم کرنے کے اقدامات کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات مزید کشیدہ ہو چکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سفارتی تعلقات میں کشیدگی سے دو جوہری صلاحیت کے حامل ملکوں کے پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں، لیکن کسی فوجی تصادم کا امکان نہیں ہے۔
بھارت نے منگل کو نئی دہلی میں پاکستان کے ناظم الامور کو طلب کر کے پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے کی تعداد نصف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جواب میں پاکستان نے بھی اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کے آدھے عملے کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اور اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال اس صورتِ حال کا ذمہ دار بھارت کو قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر جسپال نے کہا کہ بھارت کے حالیہ اقدامات نے معاملات کو اس نہج تک پہنچایا۔
خیال رہے کہ بھارت نے 31 مئی کو دو پاکستانی سفارت کاروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کر دیا تھا۔ بھارت نے یہ الزام لگایا تھا کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے بعض اہل کار جاسوسی اور دہشت گرد تنظیموں سے روابط قائم کر رکھے ہوئے ہیں جو 'ویانا کنونشن' کی بھی خلاف ورزی ہے۔
ظفر جسپال کے بقول دونوں ملکوں نے پہلے ہی اپنے ہائی کمشنرز کو واپس بلا لیا تھا اور اب سفارتی عملے میں 50 فی صد کمی سے کوئی اور تنازع بھی جنم لے سکتا ہے، لیکن فوجی تصادم کا خطرہ نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسر ی طرف پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی منگل کو مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت کی طرف سے پاکستان کی سفارتی عملے کی تعداد کم کرنے کے ردعمل میں کہا کہ "بھارت جیسا کرے گا ویسا ہی جواب دیا جائے۔"
پاکستانی وزیر خارجہ قریشی نے بھارت کے پاکستانی ہائی کمیشن کے عملے پر الزامات بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت ایک بار پھر 'فالس فلیگ آپریشن' کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔
البتہ بھارت پاکستان کے ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق 'فالس فلیگ آپریشن' میں کوئی بھی ملک دہشت گردی کے کسی واقعے کا الزام لگا کر اپنے دفاع میں دوسرے ملک کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز مہیا کرتا ہے۔
بھارت کی دفاعی امور کی تجزیہ کار دپنکر بینرجی کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان نیا سفارتی تنازع دونوں ملکوں کے درمیان کسی فوجی تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔
ان کے بقول، پاکستان اور بھارت کو باہمی تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کرنے چاہیئں۔
چین اور بھارت کی کشیدگی کے تناظر میں پاک، بھارت سفارتی تنازع کے سوال پر دپنکر بینرجی کا کہنا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان جاری تنازع کو پاک بھارت سفارتی کشیدگی سے نہیں جوڑا جا سکتا ہے۔
ان کے بقول یہ دو الگ الگ معاملے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری حالیہ سفارتی تنازع دونوں ملکوں کے خراب تعلقات کا ایک تسلسل ہے۔
بھارت کے طرف سے نئی دہلی میں پاکستان کے سفارتی عملے کی تعداد میں نمایاں کمی کرنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب لداخ کے متنازع سرحدی علاقے میں بھارت اور چین کی درمیان جھڑپ میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اس معاملے پر نریندر مودی حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرنا کا مقصد بھارتی رائے عامہ کی توجہ چین، بھارت تنازع سے ہٹا کر پاکستان کی طرف منتقل کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
بھارت کی طرف سے گزشتہ سال بھارت کے زیرِ اتنظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ پاکستان نے جموں وکشمیر سے متعلق یکطرفہ اقدام کو مسترد کر تے ہوئے بھارت سے اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلا لیا تھا جس کے جواب میں بھارت نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔
پاکستان، بھارت حالیہ تنازع کی وجہ کیا ہے؟
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں چند روز قبل دو بھارتی سفارت کاروں کو ایک راہ گیر کو گاڑی کی ٹکر مار کر زخمی کرنے کے الزام میں پولیس نے حراست میں لیا تھا۔
البتہ بھارتی حکام کا موقف تھا کہ سفارتی استثنٰی کے باوجود اُنہیں گن پوائنٹ پر اغوا کر کے ناروا سلوک روا رکھا گیا۔
رواں ہفتے پیر کی صبح دونوں اہل کار واہگہ بارڈر کے راستے بھارت روانہ ہو گئے تھے۔
بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ وطن واپسی پر دونوں سفارت کاروں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات سے آگاہ کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اُن کے ساتھ پاکستان میں کس قدر ظالمانہ سلوک کیا گیا۔
البتہ پاکستان نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی تھی۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے منگل کو جاری کیے گئے بیان میں کہنا تھا کہ بھارت کشمیر میں نہتے عوام پر تشدد سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کر رہا ہے۔