پاکستان، آئی ایم ایف مذاکرات، ’بعض معاملات پر اختلافات برقرار‘

(فائل)

بین الاقومی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے درمیان ممکنہ بیل آؤٹ پیکچ کے لیے ابتدائی مذاکرات منگل کو مکمل ہوگئے۔ تاہم، اطلاعات کے مطابق، آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان بعض معاملات پر اختلافات موجود ہیں جن میں تجارتی خسارے کو کم کرنا اور ٹیکس کے ہدف کو بڑھانے اور چین سے حاصل کردہ قرضوں کی تفصیل کا معاملہ بھی شامل ہے۔

اقتصادی امور سے متعلق حکومتِ پاکستان کے ترجمان فرخ سلیم نے منگل کو ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ اور پاکستان کے درمیان تین ہفتے تک محیط ابتدائی بات چیت منگل کو ختم ہوگئی اور ان کے بقول بعض معاملات پر عالمی مالیاتی فنڈ اور پاکستان کے درمیان اختلاف موجود ہیں جن کو دور کرنا حکومت کے لیے مشکل نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے تجویز دی گئی ہے کہ پاکستان کو اپنا ٹیکس کا ہدف کم سے کم چار کھرب 75 ارب روپے رکھنا ہوگا، جب کہ حکومت نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان چار کھرب 50 ارب کا ہدف حاصل کر سکتا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ آئی ایم ایف کے تجویز کردہ ٹیکس ہدف اور حکومت کے ٹیکس ہدف میں فرق کو ختم کرنے کے معاملے پر سمجھوتہ طے پا جائے گا۔

اطلاعات کے مطابق توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے، ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور چین سے حاصل کردہ مالیاتی معاونت سامنے لانے سے متعلق عالمی مالیاتی ادارے اور پاکستان کے درمیان اختلافات موجود ہیں۔ تاہم، فرخ سلیم نے کہا کہ ’’(اختلاف کم کرنے کی) دونوں طرف سے کوشش ہو رہی ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ ’’عالمی مالیاتی فنڈ اپنے رکن ممالک کی اس وقت مدد کو آتا ہے جب ان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک نیچے چلے جائیں، جو اصلاحاتی پیکچ آئی ایم ایف پاکستان کو تجویز کر رہا ہے۔ یہ پاکستان کے بھی مفاد میں ہے۔ چاہے پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی معاہدہ نا بھی کرے، پاکستان کو اسی قسم کے اصلاحاتی پیکچ پر عمل کرنا ہوگا۔’’

تاہم، انہوں نے آئی ایم ایف کی طرف سے تجویز کردہ اقتصادی اصلاحات کے پیکچ کی مزید وضاحت نہیں کی۔

فرخ سلیم نے مزید کہا کہ پاکستان کو اس وقت 12 ارب ڈالر کے مالیاتی خسارے کا سامنا ہے، جس سے نمٹنے کے کی پاکستان طرف سے واضع کردہ حکمت عملی کے تحت دوست ممالک بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سمیت آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکچ کا حصول بھی شامل ہے جس کے لیے آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے۔

یاد رہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے پاکستان کے اسٹیٹ بینک کے پاس تین ارب ڈالر رکھنے پر اتفاق کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے آئندہ تین سالوں کے لیے ہر سال تین ارب ڈالر کا تیل موخر ادائیگی کے ساتھ فراہم کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا اور اس سلسلے میں سعودی عرب کے طرف سے ایک ارب ڈالر پاکستان کو فراہم کر دیئے گئے ہیں۔