پاکستان نے اُن خبروں کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کی فوج آرمینیا کے خلاف آذربائیجان کی حمایت میں لڑائی میں شامل ہے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے جمعے کو ایک بیان میں پاکستان کی فوج کی آرمینیا کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے سے متعلق رپورٹس کو قیاس آرائی اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔
دو روز قبل 'دی یوریشن ٹائمز' نامی ویب سائٹ نے آرمینیا کے ذرائع ابلاغ کے حوالے سے شائع رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان لڑائی میں پاکستان کے فوجی بھی آذربائیجان کے دستوں کی حمایت میں آرمینیا کی فورسز کے خلاف جنگ میں شامل ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بیان میں کہا ہے کہ پاکستانی فوج کے آذربائیجان کے ساتھ مل کر آرمینیا کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے سے متعلق رپورٹس بے بنیاد ہیں۔
پاکستان نے کہا ہے کہ وہ ناگورنو کاراباخ کے علاقے سے متعلق آذربائیجان کی پوزیشن کی حمایت کرتا ہے جو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے عین مطابق ہے۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کو آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگورنو کاراباخ کے معاملے پر جاری جھڑپوں پر تشویش ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ آرمینیا کی فوج کو متنازع علاقے میں اپنی فوجی کارروائی روک دینی چاہیے۔
پاکستان کی طرف سے یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جھڑپوں میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں فوجی اہل کاروں کے علاوہ عام شہری بھی شامل ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان نے آذربائیجان کے بعض دیہات پر آرمینیا کی فورسز کی مبینہ گولہ باری کی مذمت کرتے ہوئے اسے افسوس ناک بھی قرار دیا۔
SEE ALSO: جنگ بندی کی اپیل مسترد، آذربائیجان اور آرمینیا کی جھڑپوں میں 100 سے زیادہ ہلاکتیںاگرچہ پاکستان کے عام لوگوں کی اکثریت کو ناگورنو کاراباخ کے خطے اور اس سے متعلق جڑے تنازع کے بارے میں کم ہی معلوم ہے۔ لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کا تنازع پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
پاکستان کے سوشل میڈیا پر آذربائیجان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے ٹرینڈز بھی چلائے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ آذربائیجان کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے اور روایتی طور پر پاکستان کے اس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔
دوسری طرف آرمینیا کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی پاکستان نے اسے تسلیم کیا ہے۔
بین الااقوامی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان نے ناگورنو کاراباخ کے معاملے پر آذربائیجان کی حمایت کی ہے۔
اُن کے بقول جب بھی یہ تنازع کھڑا ہوتا رہا ہے پاکستان نے آذربائیجان کی حمایت کی ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ آرمینیا کی فورسز کی کارروائیاں پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔
پاکستان کی جانب سے آذربائیجان کی حمایت پر حسن عسکری کہتے ہیں کہ پاکستان کے آرمینیا کے ساتھ نہ تو سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی پاکستان نے اب تک آرمینیا کو تسلیم کیا ہے۔ لہذا جب بھی ماضی میں ناگورنو کاراباخ کا تنازع کھڑا ہوا، پاکستان نے آذربائیجان کی ہی حمایت کی۔
انہوں نے کہا کہ ترکی بھی آذربائیجان کی حمایت کرتا آ رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے آذربائیجان کی حمایت کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔
واضح رہے کہ سویت یونین سے علیحدگی کے بعد آذربائیجان نے جب آزادی کا اعلان کیا تو پاکستان ترکی کے بعد 1991 میں آذربائیجان کو تسلیم کرنے والا دوسرا ملک تھا۔
حسن عسکری کے بقول آذربائیجان اسلامی تعاون تنظیم کا رکن ہے اور جموں و کشمیر کے معاملے پر آذربائیجان پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتا آ رہا ہے۔
پاکستان میں آذربائیجان کی حمایت کے رجحان پر حسن عسکری کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کی طرف سے آذربائیجان کی حمایت ریاستی پالیسی کی ہی عکاسی ہے۔
تاہم بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے آذربائیجان کی حمایت کی ایک وجہ جغرافیائی صورتِ حال بھی ہے۔
اُن کے بقول بلاشبہ ایک مسلمان ملک ہونا بھی پاکستان کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کا دائرہ کار بھی خطے کے ان ممالک تک بڑھانے کی وجہ سے پاکستان آذربائیجان کو اہمیت دیتا ہے۔
یاد رہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان متنازع علاقے ناگورنو کاراباخ میں جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ یہ علاقہ آذربائیجان کی حدود میں واقع ہے۔ لیکن اس کا انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس ہے جنہیں آرمینیا کی حکومت کا تعاون حاصل ہے۔
سویت یونین کے خاتمے پر ناگورنو کاراباخ کی مقامی پارلیمان نے اس علاقے کو آرمینیا میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ لیکن آذربائیجان نے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کئی جھڑپیں ہو چکی ہے۔