واشنگٹن —
روس، بیلا روس اور قازقستان نے باہمی تجارت اور معاشی تعاون کو فروغ دینے کی غرض سے نیا علاقائی اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
جمعرات کو قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں تینوں ملکوں کے صدور نے نئے اتحاد کے قیام کے معاہدے پر دستخط کیے جسے 'یوریشین اکنامک یونین' کا نام دیا گیا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن اور قازق صدر نور سلطان نذر بایوف نے معاہدے کو ایک تاریخی قدم قرار دیا۔
بیلاروس کے صدر الیگزنڈر لوکا شینکو نے کہا کہ نیا معاہدہ خطے کو باہم مربوط اور متحد رکھنے کی جانب پہلا قدم ہے جس کے لیے کئی برسوں سے کوششیں جاری تھیں۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے کا مقصد رکن ملکوں کے عوام کو امن، سکون اور دوستی کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
مذکورہ معاہدہ جنوری 2015ء سے نافذ العمل ہوگا جس سے قبل رواں برس کے اختتام تک آرمینیا اور کرغیزستان بھی اس پر دستخط کردیں گے۔
ان دونوں ملکوں کی جانب سے معاہدے کی توثیق کے بعد 15 سابق سوویت ریاستوں میں سے پانچ اس نئے اتحاد کا حصہ ہوں گی، جسے بعض یورپی تجزیہ کار "سوویت یونین کو نیا جنم دینے کی روسی کوششوں کا حصہ" قرار دے رہے ہیں۔
اتحاد میں شامل ممالک توانائی، صنعت، زراعت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔
آستانہ کے صدارتی محل میں ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر پیوٹن نے اعلان کیا کہ معاہدے کے نتیجے میں روس، بیلا روس اور قازقستان کے شہریوں کو اتحاد کے رکن ملکوں میں بغیر کسی اجازت نامے کے ملازمت اور تجارت کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
روسی صدر نے اعلان کیا کہ نیا معاہدہ 2010ء کے 'کسٹمز یونین' معاہدے کی جگہ لے گا جس کا مقصد یورپی یونین کی طرز پر تمام سابق سوویت ریاستوں کے درمیان آزادانہ تجارت کو یقینی بنانا تھا۔
صدر پیوٹن نےتقریب کے تین ہزار سے زائد شرکا کو یقین دلایا کہ اتحاد میں شامل تمام ممالک کی انفرادی خودمختاری کا مکمل تحفظ کیا جائے گا۔
معاہدے کے تحت اتحاد کے انتظامی معاملات پر آنے والے بیشتر اخراجات روس ادا کرے گا لیکن اتحاد میں تمام ملکوں کو ووٹ دینے کا مساوی حق حاصل ہوگا۔
جمعرات کو قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں تینوں ملکوں کے صدور نے نئے اتحاد کے قیام کے معاہدے پر دستخط کیے جسے 'یوریشین اکنامک یونین' کا نام دیا گیا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن اور قازق صدر نور سلطان نذر بایوف نے معاہدے کو ایک تاریخی قدم قرار دیا۔
بیلاروس کے صدر الیگزنڈر لوکا شینکو نے کہا کہ نیا معاہدہ خطے کو باہم مربوط اور متحد رکھنے کی جانب پہلا قدم ہے جس کے لیے کئی برسوں سے کوششیں جاری تھیں۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے کا مقصد رکن ملکوں کے عوام کو امن، سکون اور دوستی کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
مذکورہ معاہدہ جنوری 2015ء سے نافذ العمل ہوگا جس سے قبل رواں برس کے اختتام تک آرمینیا اور کرغیزستان بھی اس پر دستخط کردیں گے۔
ان دونوں ملکوں کی جانب سے معاہدے کی توثیق کے بعد 15 سابق سوویت ریاستوں میں سے پانچ اس نئے اتحاد کا حصہ ہوں گی، جسے بعض یورپی تجزیہ کار "سوویت یونین کو نیا جنم دینے کی روسی کوششوں کا حصہ" قرار دے رہے ہیں۔
اتحاد میں شامل ممالک توانائی، صنعت، زراعت اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔
آستانہ کے صدارتی محل میں ہونے والی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر پیوٹن نے اعلان کیا کہ معاہدے کے نتیجے میں روس، بیلا روس اور قازقستان کے شہریوں کو اتحاد کے رکن ملکوں میں بغیر کسی اجازت نامے کے ملازمت اور تجارت کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
روسی صدر نے اعلان کیا کہ نیا معاہدہ 2010ء کے 'کسٹمز یونین' معاہدے کی جگہ لے گا جس کا مقصد یورپی یونین کی طرز پر تمام سابق سوویت ریاستوں کے درمیان آزادانہ تجارت کو یقینی بنانا تھا۔
صدر پیوٹن نےتقریب کے تین ہزار سے زائد شرکا کو یقین دلایا کہ اتحاد میں شامل تمام ممالک کی انفرادی خودمختاری کا مکمل تحفظ کیا جائے گا۔
معاہدے کے تحت اتحاد کے انتظامی معاملات پر آنے والے بیشتر اخراجات روس ادا کرے گا لیکن اتحاد میں تمام ملکوں کو ووٹ دینے کا مساوی حق حاصل ہوگا۔