رسائی کے لنکس

آرمینیا اور آذربائیجان میں جھڑپیں، تنازع کیا ہے؟


آذربائیجان اور اس کے حریف آرمینیا کے درمیان 'ناگورنو کاراباخ' کے تنازع پر پیر کو جھڑپوں میں ایک مرتبہ پھر شدت آ گئی اور دوسرے روز میں داخل ہونے والی اِن جھڑپوں میں اب تک 29 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق اطراف سے ایک دوسرے پر راکٹوں اور توپ خانوں سے حملے کیے جا رہے ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان ان جھڑپوں کو گزشتہ 25 برسوں میں ہونے والی شدید ترین جھڑپ کہا جا رہا ہے۔

خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر جنگ شروع ہوئی تو روس اور ترکی جیسی خطے کی دو بڑی طاقتیں اس جنگ کا حصہ بن سکتی ہیں۔

ماسکو کا آرمینیا کے ساتھ دفاعی اتحاد ہے جو اس حصار والے خطے کی بقا اور اس کے باہر کی دنیا کے ساتھ رابطے میں بے حد اہم سمجھا جاتا ہے جب کہ انقرہ آذربائیجان میں ترک نسل 'ترک کن' کا حامی ہے۔

روس نے فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور ترکی نے کہا ہے کہ وہ آذربائیجان کی حمایت کرے گا۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

دونوں ملکوں کے درمیان 'ناگورنو کاراباخ' میں جھڑپوں کی ایک تاریخ ہے۔ اس خطے میں پہلی بار آرمینائی مسیحیوں اور آذربائیجان کے درمیان جھڑپیں 1980 میں اس وقت ہوئیں جب ماسکو کی کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کا آغاز ہوا تھا۔

نوے کی دہائی کے اوائل میں ہونے والی جنگ میں آرمینیا کی بڑی مدد کی وجہ سے ہزاروں آذربائیجانی باشندوں کو خطے سے نکلنا پڑا۔ باکو کا اس خطے پر کنٹرول ختم ہوا اور یہ علاقہ ایک خود مختار بندوبست کے تحت چلنے لگا۔

حالیہ لڑائی کے سبب جنوبی 'قفقاز' میں استحکام سے متعلق تشویش پیدا ہوئی ہے۔ قفقاز آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان واقع وہ پہاڑی سلسلہ ہے جو ایشیا اور یورپ کو ایک دوسرے سے ملاتا ہے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوان نے مطالبہ کیا ہے کہ آرمینیا فوری طور پر آذربائیجان کے علاقوں سے نکل جائے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ قبضہ ہے اور اُن کے بقول وقت آ گیا ہے کہ 'ناگورنو کاراباخ' کے بحران کو انجام تک پہنچایا جائے۔

ادھر آرمینیا کی پارلیمنٹ نے اس جھڑپ کو آذربائیجان کی طرف سے 'ناگورنو کاراباخ' پر ایک مکمل فوجی حملہ قرار دیا ہے۔

آرمینیا کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان اینا ناخدالیان نے کہا ہے کہ ترک فوجی ماہرین آذربائیجان کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں اور ان کے بقول ترکی نے ڈرونز اور جنگی طیارے فراہم کیے ہیں۔

آذربائیجان نے ان الزامات کی تردید کی ہے جب کہ ترکی کی طرف سے کوئی فوری ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔

'ناگورنو کاراباخ' کا پس منظر

امریکی تھنک ٹینک کونسل فار فارن ریلیشنز اور دیگر آن لائن ذرائع کے مطابق سوویت حکومت نے 1920 میں 'ناگورنو کاراباخ' کے نام سے ایک خود مختار علاقہ تشکیل دیا تھا جہاں 95 فی صد آبادی نسلی اعتبار سے آرمینیائی باشندوں پر مشتمل تھی اور ان کے ساتھ آذربائیجان کے لوگ بھی اس خطے کا حصہ تھے۔

بالشویک رول کے تحت آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان لڑائی پر کنٹرول رکھا گیا۔ لیکن سوویت یونین جب ٹوٹنا شروع ہوا تو اس کا آرمینیا اور آذربائیجان پر بھی کنٹرول کمزور ہو گیا۔

اسی دوران 'ناگورنو کاراباخ' کی قانون ساز اسمبلی نے آرمینیا کا حصہ بننے کی متقاضی ایک قرار داد منظور کی۔ باوجود یہ کہ یہ علاقہ محلِ وقوع کے اعتبار سے آذربائیجان کی سرحد کے زیادہ قریب تھا۔

جب 1991 میں سوویت یونین پر زوال آیا تو اس خود مختار علاقے نے باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کر دیا۔ اُس موقع پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس کے نتیجے میں 30 ہزار افراد ہلاک و زخمی ہوئے اور ہزاروں افراد پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

سن 1993 میں آرمینیا نے 'ناگورنو کاراباخ' پر کنٹرول حاصل کر لیا اور آذربائیجان کے قریبی 20 فی صد علاقے پر بھی قبضہ کر لیا۔

اگلے سال یعنی 1994 میں ایک منسک گروپ تشکیل دیا گیا جس کا مقصد اس تنازع کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔ اس گروپ کی سربراہی امریکہ، روس اور فرانس نے مشترکہ طور پر کی۔

گروپ نے آرمینیا اور آذربائیجان کی قیادت کے درمیان ملاقاتوں کا اہتمام کیا جس کے بعد ایک بار پھر جنگ بندی پر اتفاق تو ہو گیا لیکن یہ تنازع ہمیشہ کی طرح اپنی جگہ موجود رہا اور دو دہائیوں کے نسبتاً استحکام کے بعد 2016 میں ایک مرتبہ پھر فریقین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

دو ہزار سولہ میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا اور بارہا جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں۔

ناگورنو کاراباخ کا تنازع اور اقوامِ متحدہ

مارچ 2008 میں ماردا کرٹ میں نسلی آرمینین اور آذربائیجانی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 14 مارچ 2008 کو سات ووٹوں کے مقابلے میں 39 ووٹوں کے ساتھ ایک قرار داد منظور کی۔

اس قرارداد میں آرمینیا کی فورسز سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آذربائیجان کے مقبوضہ علاقوں کو فی الفور خالی کر دے۔

XS
SM
MD
LG