پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ہفتے کے روز ہونے والے دو مبینہ امریکی ڈرون حملوں میں کم ازکم 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔
مقامی حکام اور قبائلیوں کا کہنا ہے کہ میزائلوں کاہدف میران شاہ سے تقریباً40 کلومیٹرکے فاصلے پر دتہ خیل کے علاقے میں شدت پسندوں کے زیراستعمال دومکان اور ایک گاڑی تھی۔ پہلے حملے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد دوسرا حملہ کیا گیا۔
مقامی حکام کے مطابق پہلے حملے میں بغیر پائلٹ کے جاسوس طیارے سے کم از کم تین میزائل داغے گئے جس سے مکان مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے ۔ ہلاک ہونے والوں کی شناخت کے بارے میں مصدقہ معلومات سامنے نہیں آئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق میزائل حملے میں ہلاک ہونے والوں کا تعلق شمالی وزیرستان میں سرگرم طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر گروپ سے ہے۔
شمالی وزیرستان میں ستمبر کے مہینے میں 20 سے زائد میزائل حملوں میں لگ بھگ 95 شدت پسند ہلاک ہوئے جن میں غیر ملکی جنگجو بھی بتائے جاتے ہیں اور حکام کا کہنا ہے کہ ستمبر کے آخری ہفتے میں شمالی وزیرستان میں ایک گاڑی پر میزائل حملے میں القاعدہ کے ایک سینئر لیڈر شیخ الفتح اپنے تین ساتھیوں سمیت ہلاک ہو گئے تھے۔ شیخ فتح کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کے آپریشنل کمانڈر تھے۔
شمالی وزیر ستان میں یہ تازہ حملے ایک ایسے وقت ہوئے جب افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے کرم میں نیٹوکے ہیلی کاپٹروں کے حالیہ حملے میں سرحدی چوکی پر تعینات تین اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد پاکستان نے نیٹوسے شدید احتجاج کیا ہے اور اس حملے کے بعد پاکستان کے راستے افغانستان میں تعینات نیٹو افوا ج کے لیے طورخم کے مقام پر سامان رسد کی ترسیل تیسرے روز بھی بند ہے اور سینکڑوں ٹرک پاک افغان سرحد کے قریب کھڑے ہیں۔
ایک روز قبل صوبہ سندھ کے ضلع شکار پور میں دو درجن سے زائد نیٹو آئل ٹینکر جلانے کی ذمہ داری طالبان نے ذمہ داری قبول کرلی ہے اوراطلاعات کے مطابق اسے نیٹو کی طرف سے پاکستانی علاقے میں سکیورٹی فورسز کی چوکی پر حملے کا ردعمل قرار دیا ہے۔
ایک روز قبل پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے اس اُمید کا اظہار کیا تھا کہ طورخم کے راستے نیٹو افواج کے لیے سامان کی ترسیل جلد بحال ہوجائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ لمبے عرصے تک رسد بند رہنے سے علاقے کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔