وزیراعظم پاکستان کے خصوصی معاون برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان نے چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والے جان لیوا کرونا وائرس کی تشخیص کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ اس سے پہلے مریض کے سیمپل تجزیے کے لیے بیرون ملک بجھوائے جا رہے تھے۔
ڈاکٹر ظفر مزا نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور حکومت کی پوری ٹیم نے ہنگامی بنیادوں پر کوششیں کر کے دو ممالک سے ’’ ڈائگناسٹک کٹ ‘‘ یعنی تشخیصی آلات منگوا لیے ہیں۔
’’ دو ملکوں سے مسلسل رابطے میں تھے کہ ان کی تیار کردہ ڈائگنانسٹک کٹ پاکستان بھی منگوائی جا سکے۔ ایک ملک سے ڈیلیوری موصول ہو گئی ہے، دوسری طرف سے آ رہی ہے‘‘
تاہم معاون خصوصی نے ملکوں کا نام بتانے سے گریز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں چونکہ ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے اور ہم نے بہت جتن کر کے کے یہ تشخیصی آلات حاصل کیے ہیں تو ابھی ان ملکوں کا نام بتانا مناسب نہیں ہو گا۔
ووہان سے پھیلنے والے کرونا وائرس سے اب تک دنیا بھر میں تین سو سے زیادہ افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں اور کئی ایک ممالک نے اپنے شہریوں کو ووہان اور چین کے دیگر شہروں سے واپس بلا لیا ہے، لیکن پاکستان کی حکومت نے ووہان میں آٹھ سو کے قریب طالب علموں کو ملک واپس نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس وباء کو ملک میں پھیلنے سے بچا جا سکے۔
سوشل میڈیا پر حکومت پر اس فیصلے کے سبب تنقید بھی ہو رہی ہے کہ اپنے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا۔
’’اس فیصلے میں وزیراعظم، ملک میں موجود ماہرین اور تمام متعلقہ ادارے ایک صفحے پر ہیں۔ ہم اپنے آٹھ سو طالبعلموں کی چین میں ہر طرح کی مدد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کے لیے سوچ رہے ہیں لیکن ہمیں اپنے 22 کروڑ لوگوں کے لیے بھی سوچنا ہے۔‘‘
ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ ووہان میں ایک سو بیس سے زیادہ ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ پاکستان سمیت سو ملکوں نے وہاں سے اپنے لوگوں کو نہیں نکالا ہے اور یہ فیصلہ اقوام متحدہ کے ادارہ صحت اور چین کے حکام کی ایڈوائزری کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ہم ایک ذمہ دار ملک کی طرح اس کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے گائیڈ لائنز پر عمل کر رہے ہیں'‘۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق سوشل میڈیا پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ ڈاکٹرظفر مرزا نے کہا کہ کرونا وائرس کی یہ پانچویں قسم ہے جو دنیا میں پہلی بار پھیل رہی ہے۔ اس کے پھیلاؤ کے اسباب کے بارے میں حتمی طور پر کچھ معلوم نہیں کہ کس جانور یا پرندے سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے لیکن امریکہ اور چین کے سائنس دان اپنی ان تھک محنت اور کوشش کی وجہ سے وائرس کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اب تک صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا اور پھر انسانوں سے انسانوں کے اندر بھی منتقل ہو رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ علاج کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں کہ آیا کوئی ویکسین یا کوئی اور دوا مدد گار ہو سکتی ہو۔