پاکستان میں طالب علم سوشل میڈیا پر یہ کہہ رہے ہیں کہ یونیورسٹیاں انہیں آن لائن تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں، اس لیے انہوں نے فیس کی جو رقم ادا کی تھی، وہ انہیں واپس کی جائے۔
ٹوئٹر اکاؤنٹ ہولڈر اقرا بسمہ نے لکھا ہے کہ سٹوڈنٹس مایوس اور دباؤ میں ہیں۔ اس وقت اپنی سمت متعین کرنے کی اشد ضرورت ہے اور طالب علموں کو اپنے مسائل کے حل میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
طالب علم اپنے مسائل اور خدشات ٹوئٹر پر لا رہے ہیں اور یہ بتا رہے ہیں کہ ہائر ایجوکیشن کمشن کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی موجودہ صورت حال میں انہیں فاصلاتی تعلیم کی بہتر سہولت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
وہ کہہ رہے ہیں کہ کلاس روم میں تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جانے کے بعد سے یونیورسٹیوں نے فیس کی رقم واپس نہیں کی ہے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے نہ صرف تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیوں کے کیمپس بند ہوئے ہیں بلکہ اس کا اثر دفاتر اور کاروباروں پر بھی پڑا ہے، جس سے بہت سے خاندان اور طالب علم بے روزگار ہو گئے ہیں اور وہ سکولوں اور تعلیمی اداروں کی فیسیں ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں زیر تعلیم عثمان رضا کا کہنا ہے کہ ایسے بہت سے اسٹوڈنٹس موجود ہیں جو اپنی ملازمت سے فیس ادا کرتے تھے۔ لیکن لاک ڈاؤن اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے ان کی آمدنی ختم یا کم ہو گئی ہے اور وہ فیس ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔
تین جون کو بہت سے طالب علم اسلام آباد میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے دفتر کے باہر جمع ہوئے اور اپنے مطالبات پیش کیے۔ بعدازاں ہائر ایجوکیشن کمشن کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں طالب علموں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے کسی خاص نوعیت کے مسئلے سے حکام کو آگاہ کریں۔ ان کا مسئلہ متعلقہ یونیورسٹی کے پاس اٹھایا جا ئے گا۔
والنٹیئر فورس پاکستان، نوجوانوں کی ایک غیر منافع بخش اور غیر سیاسی تنظیم ہے۔ اس نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ طالب علموں کی ضرورتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہم عالمی وبا کی وجہ سے احتجاج کے لیے باہر نہیں جا سکتے، جس کی وجہ سے ہم اپنا احتجاج اور مطالبات اعلیٰ عہدے داروں اور پالیسی سازوں تک پہنچانے کے لیے آن لائن وسائل کا سہارا لے رہے ہیں۔
کئی طالب علموں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ کہہ کر ہراساں کیا جا رہا ہے کہ اگر انہوں نے آن لائن کلاسز کے متعلق کوئی شکایت کی تو ان کا نام کلاس سے خارج کر دیا جائے گا۔
ٹوئٹر پر شائع ہونے والےایک طالب علم کے خط میں کہا گیا ہے کہ کیپیٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے اسے کہا ہے کہ اس کا نام کلاس سے خارج کر دیا گیا ہے، کیونکہ اس نے یونیورسٹی قوانین کی خلاف ورزی کر کے احتجاج کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا تھا۔
کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا بھر کی یونیورسٹیوں نے اپنی کلاسز آن لائن منتقل کر دیں تھیں، جس سے ان طالب علموں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت محدود ہے یا بالکل نہیں ہے، اور ان کے لیے اپنے کورسز کے تقاضے پورے کرنے مشکل اور بعض صورتوں میں نا ممکن ہو گیا ہے۔
لیکن، یہ صرف طالب علموں کا ہی نہیں بلکہ ٹیچرز کا بھی مسئلہ ہے اور انٹرنیٹ کے خراب یا کمزور کنکشن کی وجہ سے کئی اساتذہ انٹرنیٹ پر اپنا لیکچر فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
کئی طالب علم یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ امتحانات منسوخ کر دیے جائیں۔
دیہاتوں اور دور افتادہ علاقوں میں رہنے والے طالب علموں کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی رفتار اور قوت شہری اور دیہی علاقوں میں مختلف ہے۔ دیہاتوں میں سگنلز اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ ڈاؤن لوڈ کرنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں، اور اکثر اوقات ڈاؤن لوڈ کرنے کی کوشش ناکام ہو جاتی ہے۔
جمعے کے روز پاکستان ٹوڈے میں شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا تھا کہ ایک سکول کی طالبہ نے اس وجہ سے خودکشی کر لی کیونکہ اس کے پاس اپنی کلاس کے اسباق ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے سمارٹ فون موجود نہیں تھا۔
جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں، طالب علموں میں بے چینی اور بے اطمینانی پھیل رہی ہے۔ ایک طالبہ خدیجہ کا کہنا ہے کہ بے یقینی کی کیفیت بڑی پریشان کن ہے۔ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ یونیورسٹی کب کھلے گی اور ہم کب اپنی کلاس میں جا سکیں گے۔
کئی طالب علموں کا کہنا ہے کہ عالمی وبا سے جو نقصان ہو رہا ہے، سو وہ تو ہو ہی رہا ہے، لیکن اس سے زیادہ نقصان یہ ہے کہ طالب علم ذہنی طور پر پریشان ہو چکے ہیں اور اس پریشانی کے دور ہونے کے ابھی تک آثار نظر نہیں آتے۔