یونیسکو کی عہدے دار نے بتایا ہے کہ دنیا بھر کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں کی تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے جن میں تقریباً 74 کروڑ لڑکیاں ہیں۔ ان میں سے گیارہ کروڑ سے زیادہ لڑکیوں کا تعلق دنیا کے پس ماندہ ملکوں سے ہے، جہاں لڑکیوں کا اسکول جانا ویسے ہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
گیانینی نے بتایا کہ سب سے زیادہ نقصان ان لڑکیوں کو اٹھانا پڑے گا جو پناہ گزیں کیمپوں میں رہ رہی ہیں اور ان کے سکول بھی کیمپوں کے اندر ہیں۔ انہیں دوبارہ سکول بھیجنا مزید مشکل ہو سکتا ہے اور عالمی سطح پر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے گزشتہ 20 سال میں جو کامیابیاں حاصل کی گئیں ہیں، انہیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بے گھر افراد میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلے میں نصف ہے۔
انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ اس وقت ہم کرونا وائرس کے دنیا پر اقتصادی اثرات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ خاص طور پر ان ملکوں میں جہاں خواتین کو بہت کم سماجی تحفظ حاصل ہے۔ کرونا وائرس سے معاشی سرگرمیاں اور روزگار کے مواقع محدود ہونے کی سب سے زیادہ قیمت خواتین کو ادا کرنی پڑے گی، کیونکہ لڑکیوں کی تعلیم کو سب سے زیادہ غیر اہم سمجھا جاتا ہے۔
یونیسکو کے چھ نکاتی ایجنڈے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد ٹیچرز اور کمیونیٹنز کو قریب لانا، فاصلاتی طریقہ تعلیم کا فروغ، تحفظ فراہم کرنے کی سروسز کو بڑھاوا دینا اور نوجوانوں کو رابطے میں لانا ہے۔
گیانینی کا کہنا تھا کہ اگرچہ کرونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی بندش عارضی ہے لیکن پڑھانے کا دورانیہ کم ہونے کا اثر پڑھائی سے حاصل ہونے والی کامیابیوں پر پڑتا ہے۔ جب اسکول بند ہوتے ہیں تو تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اسکولوں کی بندش کئی اور مسائل کو بھی جنم دیتی ہے جن میں معاشی پیداوار میں کمی بطور خاص قابل ذکر ہے۔