پاکستان نے 'فنانشل ایکشن ٹاسک فورس' (ایف اے ٹی ایف) کے امریکہ میں جاری اجلاس میں بھارت کی تجویز مسترد کرانے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک کا اجلاس 16 سے 21 جون تک امریکہ کے شہر آرلینڈو میں ہو رہا ہے۔
یہ اجلاس پاکستان کے لیے کافی اہم ہے، کیونکہ اس میں بھارت کی جانب سے پاکستان کو 'گرے لسٹ' سے 'بلیک لسٹ' میں ڈالنے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔
بھارت کا مؤقف ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اب تک مؤثر قانون سازی نہیں کی، جس پر اسے بلیک لسٹ کیا جائے۔
وزارتِ خزانہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ بھارت کی پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی تجویز کو مسترد کرانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کے حق میں تین سے چار ارکان ووٹ دیں۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان کو 'گرے لسٹ' سے نکالنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ کم سے کم 15 ممالک پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالیں۔
ایف اے ٹی ایف کے رکن ممالک کی تعداد 36 ہے اور امریکہ، چین، برطانیہ، ترکی اور بھارت اس کے نمایاں ارکان ہیں۔
امریکہ کی صدارت میں ہونے والا ٹاسک فورس کا یہ آخری اجلاس ہے جس کے بعد اس کی صدارت چین کو مل جائے گی۔
حمایت حاصل کرنے کے لیے سفارتی کوشش
پاکستان کی حکومت کی کوشش ہے کہ بھارت کی تجویز کو مسترد کرانے کے لیے دوست ممالک کی حمایت حاصل کی جائے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی ان دنوں لندن میں ہیں جہاں انہوں نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ برطانوی پارلیمان کے پاکستانی نژاد ارکان سے ملاقات میں انہوں نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے حوالے سے کیے گئے اقدامات سے انہیں آگاہ کیا۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے ملائیشیا کے وزیرِ اعظم مہاتیر محمد کو ٹیلی فون کیا تھا اور انھیں منی لانڈرنگ روکنے کے لیے پاکستان کے اقدامات کے بارے میں بتایا تھا۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکہ کے سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو کو بھی ٹیلی فون کیا تھا۔
دفترِ خارجہ کے مطابق شاہ محمود قریشی نے مائیک پومپیو سے گفتگو میں پاکستان میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی وسائل کی روک تھام کے لیے وضع کیے گئے ریگولیٹری میکینزم کا بھی ذکر کیا۔
اقتصادی اُمور کی رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ 'ایف اے ٹی ایف' میں سفارتی سطح پر حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ امریکہ میں ہونے والے اجلاس میں بلیک لسٹ میں ڈالنے کی بھارتی تجویز مسترد ہو جائے۔
کالعدم تنظیموں کے خلاف مزید کارروائی کا دباؤ
2018ء میں پاکستان کو 'ایف اے ٹی ایف' کی گرے لسٹ میں ڈالنے کے بعد بین الاقوامی ادارے نے انسدادِ منی لانڈنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے پاکستان کو 27 نکات پر مشتمل ایکشن پلان دیا تھا، جس کا باقاعدہ جائزہ لیا جا رہا ہے۔
پاکستان کو ان نکات پر مشتمل ایکشن پلان پر ستمبر 2019ء تک مکمل عمل کرنا ہے۔
پاکستان 'ایف اے ٹی ایف' کا رکن نہیں ہے۔ لیکن وہ اس کے ذیلی 'ایشیا پیسفک گروپ' کا رکن ہے۔ حال ہی میں 'ایشیا پیسفک گروپ' نے پاکستان کی جانب سے اب تک کیے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد اپنی سفارشات سے بھی 'ایف اے ٹی ایف' کو آگاہ کیا ہے۔
صحافی مہتاب حیدر کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے 27 میں 18 نکات پر تاحال مکمل عمل درآمد نہیں کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ایف اے ٹی ایف نے اپنی تحریری رپورٹ میں پاکستان سے کالعدم تنظیموں کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے منی لانڈرنگ روکنے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں لیکن دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کو عدالت سے سزا بھی ملنی چاہیے جس کے لیے حتمی اور مؤثر قانون سازی ضروری ہے۔
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے حال ہی میں ایف آئی اے، کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارمنٹ اور نیکٹا کو منی لانڈرنگ جیسے جرائم کی تحقیقات کا اختیار دیا ہے۔
صحافی مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ 'ایف اے ٹی ایف' کے اعتراضات دور کرنے کے لیے حکومت فارن ایکسچینج ریگولیشنز بل میں ترمیم کے ذریعے اسٹیٹ بینک کو اختیار دے گی کہ وہ اندرون ملک اور بیرون ملک غیر ملکی کرنسی کی نقل و حرکت کو روک سکے۔
مجوزہ قانون میں غیر قانونی طور پر کرنسی کی نقل و حرکت یعنی ہنڈی کے کاروبار سے منسلک افراد کو کم سے کم سات سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔