جنرل کیانی نے امریکہ سے ڈرون طیاروں کی مدد مانگی: وکی لیکس

جنرل کیانی نے امریکہ سے ڈرون طیاروں کی مدد مانگی: وکی لیکس

وکی لیکس کے تازہ انکشافات کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی افواج کی کارروائیوں میں امریکہ سے ڈرون یا بغیر پائلٹ کے طیاروں کی مدد مانگی تھی۔

امریکی حکومت کے اندرونی سفارتی مراسلوں کی یہ تفصیلات جمعہ کو پاکستان کے انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ نے شائع کیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 22 جنوری 2008ء میں امریکی CENTCOM کے سربراہ ایڈمرل ولیم فالن سے ملاقات میں جنرل کیانی نے درخواست کی تھی کہ جنوبی وزیرستان کے جن علاقوں میں پاکستانی فوج جنگجوؤں کے خلاف برسر پیکار ہے وہاں اُنھیں ڈرون طیاروں کی مسلسل مدد درکار ہے۔

پاکستانی فوج کے سربراہ کی اس درخواست کے بارے میں اُس وقت اسلام آباد میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹرسن نے 22 فروری 2008ء کو خفیہ سفارتی مراسلے یا کیبل کے ذریعے واشنگٹن کو مطلع کیا تھا۔

لیکن جنرل کیانی کی اس درخواست کی وکی لیکس پر جاری کی گئی تفصیلات سے یہ بات واضح نہیں کہ اُنھوں نے میزائلوں سے لیس یا پھر محض فضائی جاسوسی کرنے والے بغیر پائلٹ طیاروں کی مدد مانگی تھی۔

امریکی سفیر کے خفیہ مراسلے کے مطابق ملاقات میں پاکستانی فوج کے سربراہ کی اس درخواست پر اپنے فوری ردعمل میں ایڈمرل فالن نے یہ کہہ کر معذرت کردی تھی کہ ”اُن کے پاس یہ اثاثے (ڈرون) نہیں ہیں“۔ البتہ اُنھوں نے یہ پیشکش ضرور کی تھی کہ اُن کی تربیت یافتہ میرین فورس (JTACs) پاکستانی انفنٹری فورس کے ساتھ مل کر فضائی حملے کرسکتی ہے۔

لیکن جنرل کیانی اس پیشکش کو ماننے سے ہچکچائے کیونکہ اُن کے خیال میں امریکی افواج کی پاکستانی سرزمین پر موجودگی ”سیاسی طور پر قابل قبول نہیں ہوگی“۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ایڈمرل مائیک ملن

جنرل کیانی اور امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک ملن کے ساتھ تین اور چار مارچ 2008ء کی ہونے والی ایک ملاقات کی تفصیلات کے مطابق فاٹا کے اوپر امریکی طیاروں کی پروازوں کے لیے ایک تیسری ممنوعہ راہداری کی منظوری کے لیے پاکستانی فوج کے سربراہ سے مدد مانگی گئی۔

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے 24 مارچ 2008ء کو بھیجے گئے اس خفیہ سفارتی مراسلے پر اپنے تجزیے میں ڈان اخبار نے کہا ہے کہ امریکی ایڈمرل کی درخواست سے یہ بات واضح ہے کہ دو راہداریوں کی پہلے ہی منظوری دی جا چکی تھی۔

پاکستانی فوج کے سربراہ کے دورہ امریکہ سے ایک ہفتہ قبل 19 فروری 2009ء کو امریکی سفیر این پیٹرسن نے واشنگٹن بھیجے جانے والے اپنے ایک سفارتی مراسلے میں ڈرون حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”(جنرل) کیانی اس بات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں کہ وزیرستان میں کیے جانے والے یہ حملے ٹھیک نشانے پر اور غیر ملکیوں کو ہدف بنا رہے ہیں۔“

پاکستانی اخبار کے مطابق وکی لیکس کے ان تازہ انکشافات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ بظاہر ڈرون حملوں کی مخالفت اور مذمت کرنے والی پاکستانی فوج کی قیادت بھی سیاسی قیادت کی طرح درپردہ نا صرف ان کی حمایت کرتی ہے بلکہ یہ کارروائیاں فوج کی منظوری سے کی جا رہی ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع کی گئی وکی لیکس کی تازہ تفصیلات کو مسترد کرتے ہوئے فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ماضی میں محض چند علاقوں میں صرف تکنیکی خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا گیا تھا۔ ”ہم نے کبھی بھی اپنی (پاکستانی) کارروائیوں میں امریکی ڈرون حملوں کی مدد کا مطالبہ نہیں کیا۔“

ترجمان نے واضح کیا کہ سوات و مالاکنڈ میں ’آپریشن راہ راست‘ اور جنوبی وزیرستان میں ’آپریشن راہ نجات‘ میں بیرونی معاونت تک کی درخواست نہیں کی گئی، اور یہ کارروائیاں پاکستانی فوج اور فضائیہ نے مشترکہ طور پر کیں۔

واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کے معروف ذریعے ’ٹوئیٹر‘ پر اپنے ایک مختصر تبصرے میں کہا ہے کہ ”اس سے قبل کہ آپ سب وکی لیکس کے بخار میں مبتلا ہوں برائے مہربانی یہ مت بھولیے کہ یہ محض سفارت کاروں کی رپورٹوں، گفتگو، تاثرات اور گپ شپ پر مبنی ہوتی ہیں۔“

وکی لیکس کے ان تازہ انکشافات کی تشہیر کرتے ہوئے ڈان اخبار میں جمعہ کو یہ خصوصی اعلان بھی کیا گیا ہے کہ حال ہی میں ڈان میڈیا گروپ اور وکی لیکس کے بانی جولیان آسانژ کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت وکی لیکس کی طرف سے افشا کیے جانے والے پاکستان سے متعلق امریکی سفارتی مراسلے سب سے پہلے ڈان کو فراہم کیے جائیں گے۔

مزید برآں وکی لیکس کی طرف سے ڈان کو فراہم کی گئی معلومات کے مطابق 2009ء کے اوائل میں ایک ایسے وقت جب مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریف غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمدچودھری کی بحالی کے لیے احتجاجی مہم میں سرکردہ کردار ادا کر رہے تھے اُن کی جماعت کی قیادت نے امریکی سفارت کاروں کو بتایا کہ معزول جج کے مستقبل پر سمجھوتا ممکن ہے۔

جنرل کیانی نے امریکہ سے ڈرون طیاروں کی مدد مانگی: وکی لیکس

لاہور میں امریکی قونصل خانے کے اعلیٰ عہدے دار برائن ہنٹ نے 14 مارچ 2009ء کو بھیجے گئے اپنے سفارتی مراسلے میں لکھا کہ ”شہباز (شریف) نے کہا کہ (چیف جسٹس کی) بحالی کے بعد مسلم لیگ (ن) اس معاملے کو ختم کرنے اور (افتخار محمد) چودھری کو ہمیشہ کے لیے (عہدے سے) ہٹانے پر تیار ہے۔“

تاہم مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر پرویز زشید نے جمعہ کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان تفصیلات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ یہ امریکی سفارت کار کا اپنا تجزیہ ہو سکتا ہے لیکن اس میں کوئی صداقت نہیں۔ اپنے موقف کی تائید میں اُنھوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے حلف اُٹھایا تھا کہ بحیثیت قانون ساز اُن کی اوالین ترجیح معزول چیف جسٹس کی بحالی ہو گی۔