انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں نے پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے قریب واقع شہر گوجر خان میں مقیم ایک مسیحی خاندان سے زمین ہتھیانے کے لیے بعض افراد کی طرف سے ان کے مکان کو آگ لگانے کے مبینہ واقع کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کرنا کا مطالبہ کیا ہے۔
پولیس کے مطابق یہ واقعہ گزشتہ ہفتے گوجر خان میں اس وقت پیش آیا جب ایک درجن مسلح افراد نے بشیر مسیح کے گھر پر حملہ کر کے ان کے خاندان کے دیگر افراد پر تشدد کیا اور بعدازاں انہوں نے ان کے مکان کو آگ لگا دی جس دوران گھر میں کھڑی ایک گاڑی بھی جل گئی۔
گوجر خان پولیس کے ایک عہدیدار خالق داد کے مطابق پولیس نے متاثر خاندان کے سربراہ بشیر مسیحی کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا ہے جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ حملہ آور ان کے خاندان کو خوفزدہ کر کے ان کے مکان پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ہر پہلو سے اس واقعہ کی تفتیش کر رہی ہے تاکہ اس واقعہ کے اصل محرک کو سامنے لایا جا سکے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بشیر مسیح نے اپنی رپورٹ میں 12 ملزمان کو نامزد کیا ہے جن میں سے چھ نے عدالت سے ضمانت قبل از گرفتار کروا لی ہے، جبکہ باقی چھ افراد ابھی تک مفرور ہیں اور پولیس انہیں گرفتار کرنے کے لیے کارروائی کر رہی ہے۔
پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزمان، بشیر مسیحی کو خاندان سمیت ان کے مکان سے بے دخل کر کے اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ملزموں کو بعض مقامی بااثر افراد کی پشت پناہی حاصل تھی تاہم پولیس اس تاثر کو رد کرتی ہے۔
انسانی حقوق کے ایک غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق چیئرپرسن زہرا یوسف نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے متاثر مسیحی خاندان کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے زہر یوسف نے کہا کہ ایسے واقعات بار بار پیش آتے رہتے ہیں اور حکومت کا موقف رہا ہے کہ وہ اقلتتی برادریوں کو تحفظ فراہم کریں گے اور کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اس قسم کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جیسا کہ گوجر خان کا واقعہ ہوا ہے۔ ان واقعات کے پیچھے زمین پر قبضہ کرنے جسے عوامل ہوتے ہیں۔
دوسری طرف مسیحی برادری کے ایک سرکردہ راہنما شاہد معراج نے وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنی گفتگو میں ایسے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ایسے واقعات کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے جو مسیحی برداری میں عدم تحفظ کے احساس کا موجب بن رہے ہیں۔
شاہد معراج کا کہنا تھا کہ معاشرے کے کمزور طبقات بشمول مذہبی اقلیتوں کے لیے یہ تشویش کی بات ہے۔ اس لیے ہمار ا مطالبہ ہے کہ جو لوگ اس واقعہ میں ملوث ہیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
پاکستان میں سماجی طور پر محروم طبقات اور خاص طور پر مسیحی برداری اور دیگر مذہبی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو نہ صرف امتیازی سلوک کا سامنا رہتا بلکہ بعض اوقات انہیں تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
زہر یوسف کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے ہیومن رائٹس کمیشن نے حال ہی میں معاشرے کے مختلف نمائندہ افراد پر مشتمل قومی بین المذاہب ورکنگ گروپ بھی قائم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ گروپ قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اقلیتی برادری کے تمام گروپ اور سول سوسائٹی اور معاشرے کے دیگر طبقات کے نمائندہ افراد ایک پلیٹ فارم پر مل کر اقلیتی برادریوں کو تحفظ کے لیے مل کر جدوجہد کریں۔
پنجاب حکومت کی طرف سے اس واقعہ پر درخواست کے باوجود کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا لیکن پاکستان کی حکومت یہ کہتی رہی ہے کہ وہ ملک میں آباد تمام مذاہب کے لوگوں کے مذہبی عقائد کی آزادی کی پاسداری کے عزم پر قائم ہے۔