’’پاکستان اور امریکہ شدت پسندی کے خلاف متحد ہیں‘‘

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں مثالی کردار ادا کیا ہے: جونز

صدر اوباما نے قومی سلامتی کے مشیر جنرل جیمز جونز اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر لِیون پنیٹا نے صدر آصف علی زرداری اور جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بدھ کے روز اسلام آباد میں ملاقات کی۔ انہوں نے یکم مئی کو ہونے والے ناکام بم حملے پر تبادلہٴخیال کیا جس کا ذمہ دار پاکستانی طالبان کو ٹھہرایا گیا ہے۔

ایک مشترکہ اعلامیے میں مسٹر جونز نے دہشت گردی کے خلاف بہترین کارکردگی پر پاکستان کو سراہا۔ بات چیت کے دوران ان اقدامات پر بھی توجہ مرکوز کی گئی جو دونوں ممالک انتہا پسندی اور ایسے واقعات کو دوبارہ وقوع پزیر ہونے کونے سے روکنے لیے کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

پاکستانی اور امریکی اعلیٰ عہدیداران نے شدت پسندی کو ایک مشترکہ مسئلہ قرار دیا ہے اور اِس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام تر مشکلات کے باوجود ہر ممکن اقدامات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

ملاقات کے بعد جاری کیے گئے ایک مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ بامعنی بات چیت کے دوران خطے میں سکیورٹی کے حالات، دہشت گردی کے خطرات، شدت پسندی کے خلاف جاری جنگ اور دیگر دو طرفہ معاملات زیرِبحث آئے۔

امریکی عہدیداران نے پاکستان میں شدت پسندی کے خلاف جاری کارروائیوں میں دی گئی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ طویل المدت شراکت داری کا خواہشمند ہے اور پاکستانی عوام کے لیے معاشی ترقی کے مواقع فراہم کرنا چاہتا ہے۔

دونوں ممالک کے عہدیداروں نے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے حکومتی اور اعلیٰ حکام کی سطح پر رابطے بڑھانے پر بھی آمادگی ظاہر کی ۔

اعلامیے کے مطابق جنرل جونز اور سی آئی اے کے سربراہ نے پاکستانی حکام کو نیو یارک کے ٹائمزا سکوائرپر کار بم دھماکا کرنے کی کوشش کے الزام میں گرفتار فیصل شہزاد نامی پاکستانی نژاد امریکی شہری سے جاری تفتیش کے بارے میں بھی مطلع کیا۔

واضح رہے کہ فیصل شہزاد نے تفتیش کے دوران مبینہ طور پر اِس بات کا اعتراف کیا تھاکہ اْس نے بم بنانے کی تربیت پاکستان کے شورش زدہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے حاصل کی ہے۔

فیصل شہزاد (فائل فوٹو)

مبصرین کا کہنا ہے کہ اِس مبینہ انکشاف کے بعد امریکہ نے پاکستان پر دباؤ بڑھا دیا ہے کہ دوسرے علاقوں کی طرح وہ شمالی وزیرستان میں بھی طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے۔

پاکستان پر ماضی میں یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ گذشتہ برسوں سے جاری کارروائیوں میں صرف اْن شدت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جِن سے پاکستان کو خطرہ ہے جبکہ افغانستان میں اتحادی افواج پرکی جانے والی پرتشدد کارروائیوں میں شامل طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤ ں نے قبائلی علاقہ جات میں قائم اپنی پناہ گاہوں سے حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔