رسائی کے لنکس

شاہ محمود قریشی کے سیاسی کیرئیر پر نئے سوالات، نئی بحث


شاہ محمود قریشی کے سیاسی کیرئیر پر نئے سوالات، نئی بحث
شاہ محمود قریشی کے سیاسی کیرئیر پر نئے سوالات، نئی بحث

پاکستان کے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پاکستان پیپلز پارٹی کے ان وزراء میں سے ہیں جن کے وزیر بنتے وقت اور وزارت کے دوران بھی شاید اتنے چرچے نہ ہوئے ہوں گے جتنے ان کی نئی کابینہ میں عدم شمولیت کی وجہ سے ہورہے ہیں۔ آج پاکستانی میڈیا اس بحث میں لگا ہوا ہے کہ آیا شاہ محمود قریشی کو کابینہ میں شامل نہ کرنا کہیں 'تاریخی غلطی' ثابت نہ ہو ۔ کہیں ان کے ساتھ وہی 'تاریخی غلطی' تو نہیں دہرائی جارہی جو سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کے وقت میں ہوئی تھی۔ انہیں بھی اسی طرح اچانک نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو وزیر خارجہ کا قلمدان چھوڑ کرکچھ عرصے بعد وزیراعظم بن گئے۔

شاہ محمود قریشی کے حوالے سے ایک بات یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ کہیں پیپلز پارٹی نے انہیں وزارت خارجہ نہ دے کر پارٹی میں ایک اور فاروق لغاری تو پیدا نہیں کرلیا۔

مبصرین کے مطابق اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت کی جانب سے جہازی کابینہ کومختصر کرنے کے حالیہ اقدام نے پیپلز پارٹی کے لئے سیاسی راہ کو مزید خار دار بنادیا ہے۔ ایک طرف پنجاب اسمبلی میں یونی فیکشن گروپ بن گیا ہے تو دوسری طرف جن لوگوں کو وزرات نہیں ملی یا جن کی وزارت جاتی رہی انہوں نے ناراضگی تو اختیار کی ہی حکومت کے لئے نئی مشکلات بھی کھڑی کردی ہیں۔ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا نام ان افراد کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے 9 فروری کو کابینہ تحلیل کی تھی، ظاہر ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا نام بھی اس میں شامل تھا۔ دو دن بعد نئی کابینہ تشکیل پائی لیکن حیرت انگیز طور پر اس کابینہ میں شاہ محمود کا نام شامل نہیں تھا ۔ چونکہ ایک دو روز پہلے ہی تھمپو میں پاک بھارت مذاکرات ختم ہوئے تھے اور دفتر خارجہ کی جانب سے یہ بیان جاری ہوا تھا کہ شاہ محمود جولائی میں نئی دہلی کا دورہ کریں گے، ایسے موقع پر یہ اقدام یقینا اپنے اندر تجسس لئے ہوئے تھا۔

اس حوالے سے پہلے یہ خبریں آئیں کہ شاہ محمود کی چونکہ وزارت تبدیل کی جارہی تھی لہذا انہوں نے اس فیصلے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا جبکہ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ ریمنڈ ایلن ڈیوس کیس پر اختلافات شاہ محمود کی کابینہ میں عدم شمولیت کی اصل وجہ بنے۔ سابق وزیر نے وزارت خارجہ کو عدالتوں کی رضامندی کے بغیر ریمنڈ ڈیوس کو مکمل استثنیٰ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا ۔

اس وقت سے آج تک شاہ محمود قریشی خبروں میں'ان ' ہیں۔ اگر شاہ محمود قریشی کا پس منظر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں پیپلز پارٹی میں خاصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا انہیں بہت زیادہ اعتماد حاصل تھا ۔ سن 2008ء کے انتخابات کے موقع پر بینظیر بھٹو نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ شاہ محمود قریشی کو بنائیں گی لیکن موت نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی ۔

شاہ محمود پیپلز پارٹی میں شمولیت سے قبل ایک دہائی تک مسلم لیگ (ن) سے منسلک رہے۔ 1993ء میں ملتان میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر ان کے نواز شریف سے اختلافات پیدا ہوگئے تھے جس کے بعد انہوں نے ن لیگ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ لیکن انہوں نے پارٹی یا قیادت کو برابھلا کہنے کے بجائے ماڈل ٹاوٴن لاہور میں نواز شریف سے ملاقات کر کے اپنے تحفظات اور فیصلے سے آگاہ کیا۔ تب سے کبھی ان کو شریف برادران پر کسی معاملے میں تنقید کرتے نہیں دیکھا گیا۔

شاہ محمود نے صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی سے حالیہ اختلافات کے باوجود اس بات کو واضح کیا ہے کہ ان کی پارٹی کے ساتھ وابستگی کسی سوال سے بالاتر ہے۔

شاہ محمود قریشی 1985ء سے 1993ء تک( ن لیگ کی جانب سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ ملنے تک) پنجاب اسمبلی کے رکن رہے۔ جاوید ہاشمی نے انہیں صرف ایک بار 1997ء کے عام انتخابات میں شکست دی لیکن قریشی نے جاوید ہاشمی کو 2002ء اور 2008ء میں 2 بار ہرایا۔

بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں وہ پارلیمانی امور کے وزیر مملکت رہے۔ اس بار احمد مختار کے علاوہ شاہ محمود قریشی بھی وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار تھے لیکن آصف زرداری نے ان کو بالآخر وزیر خارجہ بنا دیا۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس وقت شاہ محمود قریشی کے پاس تین آپشن موجود ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ مسلم لیگ (ن) دوبارہ جوائن کرلیں اور پیپلز پارٹی کو خیر باد کہہ دیں۔ دوسرا راستہ یہ کہ وہ پیپلز پارٹی کے اندرایک علیحدہ گروپ تشکیل دیں اور تمام ناراض عہدیداروں اور کارکنوں کو ساتھ ملاکر پریشر گروپ بنالیں ۔ تیسرا راستہ وہی ہے جو سابق صدر فاروق احمد خان لغاری نے اپنایا تھا یعنی اپنی الگ پارٹی تشکیل دیں اور پھر سیاست کرتے کرتے بتدریج کہیں ضم ہوجائیں ۔

شاہ محمو د قریشی کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے تاہم پیپلز پارٹی کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس سے اس طرح الگ ہونے والے اپنی جگہ نہیں بناسکے۔ گو شاہ محمود قریشی نے ابھی تک پیپلز پارٹی سے اپنا رشتہ نہیں توڑا ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا حصہ تھے اوررہیں گے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ وہ اس کا حصہ اب کس طرح رہیں گے۔

ایک مقامی اخبار کے مطابق مخدوم شاہ محمود قریشی اپنے ہی داغ امریکی دشمنی کے بیانات سے دھونے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہی مخدوم شاہ محمود قریشی جنہیں اب مغرب اور امریکا برا لگنے لگا ہے کچھ ہی عرصہ قبل ان کے لئے لمبے لمبے دلائل تراشا کرتے تھے۔ ڈیوڈ ملی بینڈ اور ہیلری کلنٹن کو اپنا دوست گردانتے تھے لیکن مبصرین سوال کرتے ہیں کہ آج صرف ایک واقعے سے سب کچھ کیسے الٹ گیا۔

XS
SM
MD
LG