چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ قریب؛ ’حکومت کو نئی تقرری کی جلدی نہیں‘

فائل فوٹو۔

  • الیکشن کمیشن کے تین اہم عہدے خالی ہونے میں صرف 12 دن باقی رہ گئے ہیں تاہم ان پر تعیناتی کے لیے وزیر اعظم نے تاحال اپوزیشن لیڈر سے مشاورت شروع نہیں کی ہے
  • اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے چیف الیکشن کمشنر اور دیگر دو ارکان کی تعینتاتی کے لیے اسپیکر کو پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا خط لکھ دیا ہے
  • مبصرین کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے طرزِ عمل سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ ان عہدوں پر تعیناتی میں تاخیر ہوگی
  • چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آئندہ تقرری ہونے تک اپنے عہدے پر کام جاری رکھ سکتے ہیں
  • موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو عمران خان نے اپنے دورِ حکومت میں مقرر کیا تھا

اسلام آباد_ پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ، سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے اراکین 26 جنوری کو اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کر کے ریٹائر ہونے والے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے تین اہم عہدے خالی ہونے میں صرف 12 دن باقی رہ گئے ہیں تاہم تینوں عہدوں پر تعیناتی کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف نے تاحال قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سے مشاورتی عمل شروع نہیں کیا ہے۔

حال ہی میں منظور ہونے والی 26 آئینی ترمیم کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور دو اراکین الیکشن کمیشن ریٹائر ہونے کے باوجود نئی تعیناتی تک عہدوں پر قائم رہ کر کام جاری رکھ سکتے ہیں۔

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھ کر فوری طور پر چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے دو ارکان کی تعیناتی کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ترجمان قومی اسمبلی نے تصدیق کی ہے کہ اپوزیشن لیڈر کا خط اسپیکر آفس کو موصول ہوگیا ہے اور اب اسپیکر آئین کے تحت اپنا کردار ادا کریں گے۔

چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کی تعیناتی وزیرِ اعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے ہوتی ہے تاہم قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے براہ راست وزیر اعظم سے رابطہ یا خط نہ لکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے باعث ان اہم عہدوں سے متعلق فیصلوں میں تاخیر ہوسکتی ہے۔

’تاخیر سے بے اعتمادی بڑھے گی‘

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیشن، ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرینسی (پلڈاٹ) کے بانی صدر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد حکومت پر خالی ہونے والے ان آئینی عہدوں پر تعیناتی کا دباؤ نہیں ہوگا۔ تاہم ان عہدوں پر تعیناتی میں تاخیر سے مزید بے اعتمادی بڑھے گی۔

انہوں نے کہا کہ لگتا ہے اس بار ان عہدوں پر تعیناتی ماضی سے بھی زیادہ تاخیر کا شکار ہوگی کیوں کے عام انتخاب دور ہیں اور 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد ریٹائر ہونے والے عہدوں پر کام جاری رکھ سکتے ہیں۔

دو دہائیوں سے زائد عرصے سے الیکشن کمیشن کو کور کرنے والے سینئر صحافی افتخار اے خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے حکومت میں الیکشن کمیشن میں سندھ اور بلوچستان سے ایک ایک رکن کی تعیناتی ایک سال کی تاخیر سے کی گئی تھی اور اس بار بھی تاخیر ہوتی نظر آرہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئین میں ترمیم کرائی ہے وہ خالی ہونے والے عہدوں پر کیوں فوری تعیناتی کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر اور کسی رکن کی ریٹائرمنٹ سے تین ماہ قبل تعیناتی کا عمل شروع کرنے کی حد بھی مقرر کی جاسکتی تھی لیکن اس کے بجائے ریٹائر ہونے والوں کو کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔

افتخار اے ملک نے کہا کہ عام انتخاب کے دوران اور انتخابات کے بعد موجودہ الیکشن کمیشن تاریخ کا سب سے زیادہ متنازع کمیشن بن گیا ہے جس کی وجوہ بھی نظر آ رہی ہیں۔

SEE ALSO: ایوان سے منظور 26ویں آئینی ترمیم میں کیا کیا ہے؟

’جلدی کی کوئی وجہ نہیں‘

وزارت قانون کے مشیر اور رکن قومی اسمبلی عقیل ملک ریٹائر ہونے کے بعد نئی تعیناتی تک چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کو عہدے پر قائم رکھنے کی ترمیم کا دفاع کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ الیکشن کمیشن کو غیر فعال ہونے سے بچانا ہے اور اس کے علاوہ حکومت کا کوئی مقصد نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابھی وزیرِ اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان تینوں خالی ہونے والے عہدوں پر مشاورت نہیں ہوئی ہے اور اس سے قبل ہی اپوزیشن لیڈر نے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کر دیا ہے۔

ان کے بقول یہ ایسا ہی ہے کہ پہلا قدم اٹھائے بغیر دوسرا قدم اٹھایا جائے۔

وزارت قانون کے ترجمان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت میں الیکشن کمیشن کے دو اراکین کی تعیناتی ایک برس تاخیر سے ہوئی تھی۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مشاورت نہیں کی تھی اور آئین کے برعکس الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تعیناتی کی تھی جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں جلد بازی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان مشاورت ہوگی اور اگر اتفاق نہیں ہوا تو پارلیمانی کمیٹی کو علیحدہ علیحدہ مجوزہ نام دیے جائیں گے۔

آئین کے مطابق الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے پہلے مرحلے پر وزیرِ اعظم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر مشاورت کریں گے جس کے بعد کمشنر کے تقرر کے لیے تین نام پارلیمانی کمیٹی کو کسی ایک کی توثیق کے لیے بھیجے جائیں گے۔

وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں دونوں علیحدہ فہرستیں پارلیمانی کمیٹی کے غور کے لیے بھیجیں گے جو ان میں سے کسی ایک نام کی منظوری دے گی۔

پارلیمانی کمیٹی اسپیکر کی جانب سے تشکیل دی جائے گی جس میں مجموعی طور پر 12 ارکان ہوں گے جن میں سے نصف حکومتی بینچوں اور آدھے حزب اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کو شامل کیا جائے گا۔

SEE ALSO: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات؛ 'جلد کسی بریک تھرو کی توقع نہیں کی جا سکتی'

’وزیرِ اعظم نے مشاورت شروع نہیں کی‘

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کو چیف الیکشن کمشنر اور دو اراکین کی تعیناتی کے لیے مجھ سے مشاورت کرنا تھی تاہم انہوں نے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں کیا ہے اس لیے اسپیکر کو خط لکھا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر اور دو اراکین الیکشن کمیشن کی ریٹائرمنٹ میں وقت تھوڑا رہ گیا ہے اس لیے اسپیکر سے کہوں گا کہ وہ حکومت سے ان عہدوں پر آئین کے مطابق اور جلد ازجلد تعیناتی کا عمل آگے بڑھائیں۔

عمر ایوب کے بقول حکومت چاہے گی کہ یہ چیف الیکشن کمشنر تاحیات عہدے پر رہے کیوں کے انھیں ایجنسیوں اور فارم 47 کی حکومت نے جو کہا وہ کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت کے لیے یہ الیکشن کمیشن زہرِ قاتل ہے شفاف انتخابات اور پاکستان کی سالمیت کے لیے غلط کو غلط کہنے کی طاقت رکھنے والے الیکشن کمیشن کا قیام ضروری ہے۔

اپوزیشن لیڈر کا یہ بھی کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کا نام عمران خان کی حکومت میں جنہوں نے دیا تھا انہی نے چیف الیکشن کمشنر کو استعمال کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو تعنیات کرنا ہماری بڑی غلطی تھی اور انسان غلطیوں سے سیکھتا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 215 کے مطابق چیف الیکشن کمشنر یا کوئی رکن عہدہ سنبھالنے کی تاریخ سے پانچ سال کی مدت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا۔

لیکن آئین کے اسی آرٹیکل میں 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے کی گئی تبدیلی کے بعد چیف الیکشن کمشنر یا کوئی رکن مدت ختم ہونے کے بعد بھی اس وقت تک عہدے پر فائز رہے گا جب تک ان کی جگہ نئی تقرری نہ ہوجائے۔

SEE ALSO: چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری؛ کیا عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی؟

تاہم آئین کے آرٹیکل 215 کی شق چار میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کمشنر یا کسی رکن کے عہدے کی خالی اسامی 45 دنوں کے اندر پُر کی جائے گی۔

موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ ،الیکشن کمیشن میں سندھ سے رکن نثار درانی،بلوچستان سے شاہ محمد جتوئی کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں 27 جنوری 2020 میں مقرر کیا گیا تھا جو اب اپنی عہدے کی آئینی مدت مکمل کرنے والے ہیں۔