پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں حکومت کے خاتمے کے لیے حکمتِ عملی کے معاملے پر اختلافات سامنے آنے کے بعد تجزیہ کار اس اتحاد کے مستقبل پر سوال اُٹھا رہے ہیں۔
دوسری جانب تین ماہ کے التوا کے بعد بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کے عدم تعاون کے باعث قانون سازی جیسے اہم معاملات بھی التوا کا شکار ہو رہے ہیں۔
حزبِ اختلاف کے اتحاد میں شامل اہم جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کا جمہوری اور آئینی طریقہ تحریکِ عدمِ اعتماد ہی ہے۔
اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے بلاول بھٹو کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بلاول بھٹو کے پاس تحریکِ عدمِ اعتماد کے لیے نمبرز پورے ہیں تو وہ سامنے لائیں۔
بلاول بھٹو کے بیان کے بعد اتوار کو سابق صدر آصف علی زرداری کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں اُنہوں نے وضاحت کی تھی کہ پی ڈی ایم میں کوئی اختلاف نہیں اور وہ حکومت کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی اختیار کریں گے۔
تین ماہ بعد ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس بھی وقفۂ سوالات تک محدود رہا اور حکومت کی جانب سے آرڈیننس کی منظوری کی کوشش کو حزبِ اختلاف نے ناکام بنا دیا۔
حزب اختلاف کی جانب سے کورم کی نشان دہی پر حکومتی اراکین کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہو پائی اور اسپیکر قومی اسمبلی کو اجلاس منگل تک ملتوی کرنا پڑا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئے حالات میں حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی حکمت عملی پر نظرِ ثانی کر رہے ہیں۔
تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف حکومت کو گرانے اور حکومت حزبِ اختلاف کے خلاف اپنی حکمتِ عملی میں کامیاب نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ فریقین اب نئے سرے سے صف بندی کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ حکومت کا ایک حلقہ مذاکرات کا راستہ نکالنا چاہتا ہے اور اس حوالے سے کوشش بھی نظر آ رہی ہے۔
حسن عسکری کے بقول دوسری طرف پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کے مجموعی بیانیے سے علیحدہ دیکھائی دیتی ہے جس کے بعد اب مسلم لیگ (ن) بھی اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کر رہی ہے۔
پیر کو مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے کے علاوہ تحریکِ عدمِ اعتماد کی تجویز کی بھی مخالفت کی گئی۔
اجلاس سے خطاب میں مریم نواز نے واضح کیا کہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ بھی ہو گا اور استعفے بھی آئیں گے۔
حسن عسکری کے بقول اس وقت کے حالات بتاتے ہیں کہ عدمِ اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے امکانات کم ہیں اور پی ڈی ایم کی جماعتیں بھی تاحال عدم اعتماد پر ایک مؤقف نہیں رکھتیں۔
اُن کے بقول اگر چہ پی ڈی ایم نے استعفے اور لانگ مارچ کے اپنے آپشن ختم نہیں کیے۔ لیکن اب وہ حکومت کے خلاف حکمت عملی کے لیے نئے امکانات تلاش کر رہی ہے۔
اس سے قبل حکومتی رہنماؤں نے سیاسی کشیدگی میں کمی کے لیے حزب اختلاف کے رہنماؤں سے ملاقات بھی کی تھی۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات میں حکومتی رہنماؤں نے سیاسی کشیدگی میں کمی کے علاوہ حزبِ اختلاف سے ایوان کی کارروائی اور قانون سازی کے عمل پر بھی تعاون پر زور دیا تھا۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے حال ہی میں حزبِ اختلاف کو پارلیمنٹ کے اندر سیاسی معاملات پر بات چیت کی پیش کش کی گئی تھی۔
حزبِ اختلاف نے حکومت کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر کسی قسم کا تعاون نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
حزبِ اختلاف کے اس اعلان کے بعد پارلیمانی نظام کو چلانے کے سب سے اہم ادارہ قومی اسمبلی معطل ہو کر رہ گیا ہے اور گزشتہ تین ماہ سے اس کا کوئی اجلاس تک نہیں ہو سکا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پارلیمانی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی فاروق اقدس کہتے ہیں کہ حکومت قانون سازی کرنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اکثریت درکار ہے جب کہ پی ڈی ایم کے پاس حکومت مخالف تحریک میں اب زیادہ کچھ کرنے کو نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا حالیہ اجلاس بہت اہمیت کا حامل ہے جس میں سینیٹ انتخابات کے ساتھ ساتھ یہ بھی طے ہوگا کہ موجودہ حکومت اپنی مدت مکمل کرے گی یا کچھ اور صورت نکلے گی۔
فاروق اقدس کہتے ہیں کہ آرمی چیف کی جانب سے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو یہ واضح کرنا کہ فوج منتخب جمہوری حکومت کی تائید کی پابند ہے کے بعد اب حزبِ اختلاف عدم اعتماد کی تحریک کی صورت میں آئینی اور قانونی راستہ دیکھ رہی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم وہ کہتے ہیں کہ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ کیا پیپلز پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے تحریکِ عدمِ اعتماد میں کامیابی کی کوئی یقین دہانی کروائی گئی ہے یا اس کے ساتھ بھی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد تحریک جیسا حال ہو گا۔
خیال رہے کہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے گزشتہ سال اپوزیشن جماعتوں نے تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کی تھی۔ تاہم اکثریتی اراکین کے باوجود اپوزیشن کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔
فاروق اقدس سمجھتے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرنے کے لیے حزبِ اختلاف کو حکومتی اتحادی مسلم لیگ (ق) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ووٹ درکار ہیں جس کا فیصلہ اسلام آباد میں نہیں بلکہ راول پنڈی کی منظوری سے ہی ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں تجزیہ کاروں کا مجموعی خیال یہی رہا ہے کہ پاکستانی کی طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر ملک کے سیاسی حالات میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی۔ اور اس حوالے سے راولپنڈی میں افواجِ پاکستان کے ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کے کردار کو حتمی سمجھا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ تین ماہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے متعدد صدارتی آرڈیننس جاری کیے گئے تھے۔
پارلیمانی قواعد کے مطابق پارلیمانی سال کے دوران کم ازکم 130 دن اجلاس بلایا جانا لازم ہے۔
اگست میں شروع ہونے والے رواں پارلیمانی سال کے پانچ ماہ کے دوران اب تک صرف 23 دن قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا ہے جب کہ بقیہ سات ماہ میں 107 دن مزید اجلاس بلانا ضروری ہے۔