|
ویب ڈیسک—بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں واقع 'جبلِ نور القرآن' سے 120 قدیم اور نایاب قرآنی نسخے چوری ہو گئے ہیں ۔چوری شدہ نسخوں میں 600 سے 700 سال پرانے بعض ہاتھ سے تحریر کردہ نسخے بھی شامل ہیں۔
تھانہ بروری پولیس نے "جبل نور القرآن" کے انچارج اجمل خان کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
جبلِ نور القرآن کے انچارج کے مطابق منگل اور بدھ کی درمیانی شب نامعلوم چور غار میں داخل ہوئے اور وہاں شیشے توڑ کر قدیم قرآنی نسخے اپنے ہمراہ لے گئے۔
اجمل خان نے پولیس کو بتایا ہے کہ جب وہ بدھ کی صبح 10 بجے جبلِ نورالقرآن پہنچے تو غار کےدروازے کا تالا ٹوٹا ہوا تھا اور وہاں 12 شو کیس کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ جبلِ نورالقرآن کوئٹہ کے مضافات میں چلتن پہاڑی سلسلے میں واقع ہے جہاں پہاڑوں میں سرنگ کھود کر قرآن کے ضعیف اور مخدوش نسخے اور دیگر مذہبی کتب رکھی گئی ہیں۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کے جان و مال غیر محفوظ ہونے کے بعد اب کلام الٰہی بھی غیر محفوظ ہے۔
جبل نور کمیٹی کے رکن میر بالاچ لہڑی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شوکیس سے قرآن کے 120 نسخے چوری ہوئے ہیں جن میں سے بعض 300 سے 700 سال قدیم ہاتھ سے تحریر شدہ نسخے بھی شامل ہیں۔
ان کے بقول، " یہ قرآن پاک کے مقدس نسخے ہمارے لیے قیمتی نوادرات سے بھی زیادہ حیثیت رکھتے تھے جنہیں اس طرح بے حرمتی سے چرایا گیا ہے۔"
بالاچ لہڑی نے کہا کہ پہلے ہی لوگوں کی جان و مال محفوظ نہیں تھی اور اب مقدس کلام اور امانت بھی محفوظ نہیں ہے۔
دوسری جانب اجمل خان کا کہنا ہے کہ جبلِ نورالقرآن میں سی سی ٹی وی کیمرے موجود ہیں اور ان کے بیک اپ کے لیے بیٹریز بھی نصب ہیں۔ تاہم زیادہ لوڈشیدنگ کی وجہ سے بیٹری بیک اپ ختم ہو چکا تھا۔
انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ملزمان کارروائی سے قبل شاید کئی بار جبلِ نورالقرآن آ چکے ہیں، جن کے پاس تمام معلومات تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے منظم طریقے سے کارروائی کی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کی تلاش کے لیے قریبی عمارتوں میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد لی جا رہی ہے اور امید ہے کہ جلد ہی گرفتاریاں عمل میں آئیں گی۔
جبلِ نور القرآن کب اور کیوں بنائی گئی؟
کوئٹہ کے نواحی علاقے مغربی بائی پاس پر کوہِ چلتن کے دامن میں سن 1992 میں حاجی عبد المجید لہڑی اور ان کے بھائی نےقرآن کے ضعیف اور ناقابلِ مطالعہ نسخوں کو محفوظ بنانے کے لیے ایک غار بنایا تھا۔ا
ابتدا میں یہاں کوئٹہ اور اندرونِ بلوچستان سمیت اندرون ملک سے قرآن کے ضعیف اوراق اکھٹے کر کے محفوظ کیے جاتے تھے۔ لیکن اب دنیا بھر سے قرآن کے نسخے یہاں بھجوائے جاتے ہیں۔
جبلِ نور القرآن آج ایک میوزیم کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں ملک بھر سے لوگ سیاحت اور عبادت کی غرض سے آتے ہیں۔
منتظمین کے مطابق پہاڑ کے اندر سینکڑوں میٹر لمبی تقریباً 30 سے زائد غاریں کھودی گئی ہیں جہاں رکھے گئے شہید قرآنی اوراق کی تعداد تین کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔
محفوظ کردہ قرآنی نسخوں میں مختلف زبانوں میں ترجمہ کیے گئے 600 سے 700 سال قدیم نسخے بھی شامل ہیں۔
چلتن پہاڑ کے سینے میں نہ صرف ضعیف قرآنی اوراق کو محفوظ کیا جاتا ہے بلکہ ان میں قابل مطالعہ نسخوں کی مرمت کر کے مختلف دینی مدارس کو طلباء کے لیے فراہم کیا جاتا ہے۔
جبل نور القرآن کے منتظمین نے بلوچستان حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ دنیا بھر میں منفرد حیثیت رکھنے والے جبل نور القرآن کی سرکاری سطح پر حفاظت کے لیے نہ صرف عملی اقدامات اٹھائے بلکہ قرآن پاک کے قدیم نسخے چوری کرنے والے ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرے۔