نیویارک سے شروع ہونے والی آکوپائی وال اسٹریٹ یا وال اسٹریٹ پر قبضہ کرلو نامی تحریک سے متاثر ہو کر سرمایہ دارانہ نظام اور بڑی کارپویشنوں کےخلاف مظاہروں کا سلسلہ امریکہ کے شہروں سے نکل کر جرمنی ، اٹلی اور جاپان تک پھیل چکا ہے۔
پچھلے چند دنوں میں بڑی کارپوریشنوں کے ایک سو مخالفین نے جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں یورپیین سینٹرل بینک کے سامنے دھرنا دیا۔ روم میں مظاہرین کی ہنگامہ آرائی میں کئی گاڑیوں کو آگ لگا ئی گئی ۔ایک بینک کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دئیے گئے۔ جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں مظاہرین نے معاشرتی عدم مساوات ، بے روزگاری اور ایٹمی توانائی کے مسائل پر توجہ دلانے کی کوشش کی اور فلپائن میں امریکی سفارتخانے کے ٕقریب مظاہرین نے امریکہ کی جنگوں اور اس کے مبینہ سامراجی کردار کے خلاف نعرہ بازی کی۔ اسی طرح کے کئی اور مظاہرے یورپ کے کچھ اور شہروں اور آسٹریلیا میں بھی ہوئے ۔
آکوپائی وال سٹریٹ تحریک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کثیر الملکی کارپوریشنوں کے اثرورسوخ کے خلاف کثیر الملکی تحریک چاہیے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ان ٕمختلف ملکوں میں ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے وہ علاقائی سطحوں پر مختلف حالات کی وجہ سے ہیں۔ مگر سماجی شعبوں میں کٹوتی اور حقیقی جمہوریت کا مطالبہ جس میں متوسط طبقے کی نمائندگی ہو اور جسے بڑی کارپوریشنوں پر ترجیح حاصل ہو ایسا معاملہ ہے جو سب کے مظاہروں میں یکساں ہے ۔
وال اسٹریٹ پر قبضے کی تحریک کا بظاہر نہ تو کوئی رہنما ہے اور نہ ہی مشترکہ پیغام۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں تقریباً تین سو مظاہرین دنیا کے ایک فی صد امرا ءپر دولت جمع کرنے کا الزام لگا رہے تھے۔
اس ہفتے امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک کے رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیر کی یادگار کے افتتاح کے موقع پر صدر براک اوباما نے اس تحریک کا حوالہ بھی دیا ۔ ان کا کہناتھا کہ اگر مارٹن لوتھر کنگ ابھی زندہ ہوتے تو وہ ہمیں یاد دلاتے کہ بے روزگار افراد کا وال اسٹریٹ میں کام کرنے والے سب لوگوں کو برا بھلا نہ کہہ کر بھی وال اسٹریٹ کی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں ۔
اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کا کہنا ہے کہ G-20 کے رکن ممالک کے وزرائے خزانہ کو ان مظاہرین کی آواز پر کان دھرنا چاہیے اور ان کے تحفظات دور کرنے کے لئے قابل عمل منصوبے سامنے لانے چاہیں۔
پولینڈ کے نوبیل انعام یافتہ ٹریڈ یونین راہنما لیخ ولیسا نے وال اسٹریٹ تحریک کے لئے حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اور تقریباً ایک سو مصنفین نے ، جن میں انعام یافتہ مصنف بھی شامل ہیں انٹرنیٹ پر ایک قرار داد پر دستخط کے ذریعے دنیا بھر میں اس تحریک کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔