پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں افغانستان کے عوام اور حکومت کے ساتھ تمام سطحوں پر مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے تاکہ دوطرفہ تعلقات میں تناؤ کا سبب بننے والی رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر قیادت بدھ کو ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ پاک افغان سرحد پر فائرنگ کے واقعات اور پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ملوث شدت پسندوں کے افغانستان میں مبینہ سپورٹ نیٹ ورک سمیت تمام معاملات پر بات کی جائے گی۔
اجلاس میں افغانوں کی زیر قیادت امن کوششوں کی حمایت کا اعادہ بھی کیا گیا۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مسلح افواج کے سربراہان اور متعلقہ وفاقی وزرا کے علاوہ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے بھی شرکت کی۔
واضح رہے کہ تہمینہ جنجوعہ نے افغانستان کے نائب وزیرِ خارجہ حکمت کرزئی کی دعوت پر منگل کو کابل کا ایک روزہ دورہ کیا تھا۔
اس دورے کے بعد افغان وزارت خارجہ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ مذاکرات کے دوران دونوں ہی جانب سے اعتماد کی بحالی پر زور دیا گیا اور اس مقصد کے لیے دونوں ممالک نے کئی سطحوں پر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
سابق سفارت کار رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان رابطے یقیناً اہم ہیں لیکن اُن کے بقول افغانستان میں امن و استحکام کے لیے حقیقی پیش رفت اُسی صورت ممکن ہو گی جب دونوں ملک مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔
’’ایک تو یہ راستہ ہے کہ دوطرفہ تعلقات کو جتنا بھی مضبوط کر سکتے ہیں کیا جائے، یہ بھی اہم ہے کیوں اس سے ایک ساز گار ماحول پیدا ہو گا۔۔۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ مسئلے کے حل کی طرف ہم کیسے بڑھیں؟ اس پر غور کرنا ضروری ہے۔‘‘
دریں اثنا قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں داخلی اور بیرونی سلامتی کی صورت حال پر بھی غور کیا گیا۔
سرکاری بیان کے مطابق کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے حالیہ واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اجلاس کے شرکا کا کہنا تھا کہ علاقائی امن تنازع کشمیر اور دیگر تصفیہ طلب مسائل کے حل سے براہِ راست جڑا ہوا ہے۔
واضح رہے کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان فائرنگ و گولہ باری کے تبادلے کے واقعات بھی جنوبی ایشیا کے ان دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تناؤ کی ایک بڑی وجہ ہیں۔
پاکستان کی طرف سے عالمی برداری سے بھی یہ اپیل کی جاتی رہی ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کے حل میں اپنا کردار ادا کرے۔