نیوزی لینڈ کے دورے پر موجود پاکستان کرکٹ ٹیم کے سفر کا تکلیف دہ مرحلہ اب ختم ہو گیا ہے۔ تقریباً دو ہفتے آئسولیشن یعنی قرنطینہ میں رہنے کے بعد کھلاڑیوں کو ٹریننگ کا پروانہ مل گیا جس کے بعد 53 میں سے 52 ارکان کرائسٹ چرچ سے کوئنز ٹاؤن منتقل ہو جائیں گے جہاں اُن پر ایس او پیز لاگو نہیں ہوں گے۔
پاکستان ٹیم کو ٹریننگ کی اجازت ملنا اس لیے خوش آئند ہے کہ ایک موقع پر ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ مہمان ٹیم ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ سیریز کھیلے بغیر ہی وطن واپس لوٹ جائے گی۔
نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کے مطابق اتوار کو پاکستانی اسکواڈ کا کرونا ٹیسٹ منفی آیا تھا تاہم ایک کھلاڑی اب بھی اپنی آئسولیشن کی مدت کرائسٹ چرچ ہی میں پوری کرے گا اور مدت مکمل کرتے ہی جمعرات کو کوئنز ٹاؤن میں موجود اسکواڈ جوائن کر لے گا۔
غیر ملکی دورے پر پاکستان کرکٹ ٹیم کو اتنے لمبے قرنطینہ کے دورانیے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ اس بات کا تعین ہونا اب بھی باقی ہے۔
پاکستان ٹیم کو 18 دسمبر سے میزبان ملک کے خلاف تین میچز پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلنا ہے جب کہ 26 دسمبر سے دو میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز سے دونوں ٹیمیں 2020 کو الوداع اور 2021 کو خوش آمدید کہیں گی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اس اہم دورے کے لیے 35 کھلاڑیوں اور 20 سپورٹنگ اسٹاف پر مشتمل دستہ نیوزی لینڈ بھیجا ہے۔ ٹیم کی روانگی سے قبل تمام ارکان کے کرونا ٹیسٹ کیے گئے جو منفی آئے لیکن روانگی سے عین ایک روز قبل پی سی بی کو اس وقت جھٹکا لگا جب فخر زمان کو بخار کی وجہ سے دورے سے باہر کیا گیا۔
آکلینڈ پہنچتے ہی سپورٹنگ اسٹاف کے ایک ممبر کو بخار کی صورت میں آئسولیٹ کیا گیا اور پورے اسکواڈ کا کرونا ٹیسٹ ہوا تو چھ کھلاڑیوں کے ٹیسٹ مثبت آئے اور چار کو ہسٹارک (جن میں کرونا کے جراثیم باقی تھے) قرار دیا گیا۔
مہمان ٹیم کے کرونا ٹیسٹ مثبت آنے پر نیوزی لینڈ کی حکومت نے سخت ایکشن لیا اور پاکستانی کرکٹرز کو ان کے کمروں تک محدود کر دیا گیا۔ اور تمام ارکان کو تنبیہہ کی گئی کہ اگر اُن کا رویہ نہ بدلا تو اُنہیں واپس بھی بھیجا جاسکتا ہے۔
صرف پاکستان ٹیم ہی مشکل میں نہیں!
اس وقت دنیائے کرکٹ کی سات بڑی ٹیمیں کرکٹ سیریز کھیلنے میں مصروف ہیں۔ بھارتی ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر ہے جب کہ ویسٹ انڈین ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں مشغول ہے۔
ورلڈ چیمپیئن انگلینڈ بھی جنوبی افریقہ کے دورے پر ہے اور پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف انہی کے ہوم گراؤنڈ پر ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے لیے بے تاب۔
جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کے درمیان تین ایک روزہ میچوں کی سیریز منسوخ کر دی گئی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ابھی کرکٹ کو نارمل ہونے میں مزید وقت لگے گا۔
SEE ALSO: دورۂ نیوزی لینڈ: پی سی بی کھلاڑیوں کو پریکٹس کی اجازت ملنے کے بارے میں پرامیدچھ دسمبر کو سیریز کے آغاز سے قبل بعض کھلاڑیوں اور ہوٹل اسٹاف کے کرونا ٹیسٹ مثبٹ آنے پر دونوں ٹیموں کے کرکٹ بورڈز نے سیریز ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
پاکستانی کرکٹرز کا نہ تو دورۂ نیوزی لینڈ کووڈ-19 کے زمانے میں پہلا دورہ ہے اور نہ ہی ان کے لیے آئسولیشن کوئی نئی بات۔ وہ رواں برس انگلینڈ کے دورے کے دوران یہ تمام مصائب جھیل چکے ہیں۔ اس کے باوجود کھلاڑیوں کے کرونا ٹیسٹ مثبت آنے پر ہی سیریز کھیلنے پر زور دیا جا رہا ہے۔
کیا پی سی بی اور کھلاڑیوں نے غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا؟
اسپورٹس جرنلسٹ عتیق الرحمان کہتے ہیں کرونا فری ملک نیوزی لینڈ پہنچتے ہی 10 کھلاڑیوں کے مثبت ٹیسٹ آنے سے ملک کی بدنامی ہوئی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 'نیوزی لینڈ دنیا کا سب سے پہلا ملک تھا جس نے عالمی وبا پر قابو پانے کا اعلان کیا۔ ان کے بقول نیوزی لینڈ کے لیے کھیلوں کی سرگرمیاں اہم نہیں بلکہ انسانی زندگی ان کی ترجیحات میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس لیے پاکستانی کھلاڑیوں کے ٹیسٹ مثبت آنے پر محکمۂ صحت حرکت میں آیا اور پاکستان ٹیم پر سختیاں کیں۔
ان کے بقول پاکستان ٹیم نے دورۂ نیوزی لینڈ پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور پہنچتے ہی ہوٹل میں ایس او پیز کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جو کیمرے میں ریکارڈ ہوئیں۔
عتیق الرحمان کہتے ہیں کھلاڑیوں کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ کمروں سے باہر نہ نکلیں لیکن سب کھلاڑی باہر نکل کر ایک دوسرے سے بات کر رہے تھے، بغیر ماسک لگائے ہوٹل کے کوریڈور میں کھانا وصول کر رہے تھے اور اسی حال میں ایک دوسرے کے کمروں میں آنا جانا لگا تھا۔
یہاں عتیق الرحمان نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ نیوزی لینڈ روانگی سے قبل پی سی بی نے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
SEE ALSO: نیوزی لینڈ کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم کے 6 کھلاڑی کرونا کا شکاراُن کے بقول، "پاکستان ٹیم کی روانگی سے قبل نیشنل ٹی ٹوئنٹی اور پی ایس ایل ہو رہی تھی جب کہ بعض کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں مصروف تھے۔ کھلاڑیوں کو لمبے عرصے تک نہ تو الگ تھلک کیا گیا نہ ہی اُنہیں دو منفی ٹیسٹ کے بعد کلیئر کیا گیا بلکہ صرف ایک دو دن کا وقت دیا گیا اور منفی کرونا ٹیسٹ پر کلیئر کر دیا۔"
دوسری جانب سینئر اسپورٹس جرنلسٹ شاہد ہاشمی کہتے ہیں کہ جس طرح حکومتِ پاکستان لوگوں کو کرونا سے بچنے کا درس دے رہی ہے، اسی طرح پی سی بی نے بھی کھلاڑیوں کو نیوزی لینڈ روانگی سے قبل ایس او پیز فالو کرنے کا درس دیا تھا۔ ان کے بقول نہ پاکستانی عوام عالمی وبا کو سنجیدہ لے رہے ہیں اور نہ ہی کرکٹرز نے لیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھاکہ ڈومیسٹک سیزن کے دوران کھلاڑیوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے پاکستان کا دنیا بھر میں امیج متاثر ہوا۔کسی بھی ملک میں داخل ہوتے ہی چھ کھلاڑیوں کے کرونا ٹیسٹ مثبت اور چار کے ہسٹارک آنا کسی شرمندگی سے کم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ انگلینڈ جانے سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ نے آٹھ دس دن تک کھلاڑیوں کو بائیو سیکیور ماحول میں رکھا لیکن اس بار نیوزی لینڈ کے دورے سے قبل یہ بائیو سیکور ببل اس لیے کم مدت کا تھا کیوں کہ کھلاڑی پہلے سے ہی قائد اعظم ٹرافی کے لیے بائیو سیکور ببل میں تھے۔
انہوں نے مزید کیا کہ کرونا وائرس کی موجودگی میں اگر آپ کسی کے گھر میں کھانستے ہوئے داخل ہوں گے تو اگلی مرتبہ وہ آپ کو بلاتے ہوئے احتیاط کرے گا اور یہی پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ ہوا۔
'ایس او پیز کی خلاف ورزی تو کھلاڑیوں کی جانب سے ہوئی، لیکن ان خلاف ورزیوں کا کیمرے میں آنے سے منفی ٹیسٹ آنے والے کھلاڑیوں کو بھی ٹریننگ کی اجازت نہیں ملی۔'
کھلاڑیوں کو چارٹرڈ فلائٹ کے ذریعے نہ بھیجنا ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ ہے؟
شاہد ہاشمی کہتے ہیں نیوزی لینڈ کے لیے کھلاڑیوں کو چارٹرڈ فلائٹ کے ذریعے نہ بھیجنے کی باتیں احمقانہ ہیں۔ جب کمرشل فلائٹس ایس او پیز فالو کر کے چلائی جا رہی ہوں تو اس معاملے کو ایشو نہیں بنانا چاہیے۔
ان کے بقول انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ کی طرح پی سی بی اتنا امیر نہیں کہ ایک ایک ملین پاؤنڈ خرچ کر کے مہمان ٹیم کو بلائے یا اپنی ٹیم کو بیرونِ ملک دورے پر بھیجے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم منگل کو پہلی بار نیوزی لینڈ میں پریکٹس کرے گی۔ دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل 18 دسمبر کو آکلینڈ، دوسرا ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل 20 دسمبر کو ہیملٹن اور تیسرا میچ 22 دسمبر کو نیپیئر میں کھیلا جائے گا۔
دو میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ 26 دسمبر سے ماؤنٹ مونگانوئی اور دوسرا اور آخری ٹیسٹ تین جنوری سے کرائسٹ چرچ میں شروع ہو گا۔