پاکستان کی حکومت نے ملک میں جاری اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے نئی اقتصادی ٹیم بنائی ہے۔ جس میں حفیظ شیخ کو مشیر خزانہ، ڈاکٹر رضا باقر کو گورنر سٹیٹ بینک اور شبر زیدی کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔
پاکستان کی معیشت کو ان دنوں کئی چیلنجز کا سامنا ہے اور سٹیٹ بینک کے گورنر کی حیثیت سے ڈاکٹر رضا باقر کو روپے کی قدر اور زرمبادلہ کے ذخائر سمیت کئی مسائل درپیش ہیں۔ مزید یہ کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے اس کے اطمینان کے مطابق فوری اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
سٹیٹ بینک کے گورنر کی حیثیت سے انہیں جو چیلنجز ہیں، وہ اس میں کس حد تک کامیاب ہو پائیں گے، تجزیہ کار اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ذیل میں یہ جائزہ لیا جا رہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ
معاشی تجزیہ سمیع اللہ طارق کے مطابق معاشی شرح نمو میں بہتری کے لیے سٹیٹ بینک کا مرکزی کردار ہے، لیکن اُن کے خیال میں اس وقت سب سے اہم کام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطالبات کو پورا کرنا ہو گا۔ جس کے لیے اہم ترین پہلو نقد رقوم کی بنیاد پر چلنے والی قومی معیشت کو بینکنگ سیکٹر کے اندر لانا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت خطے میں کیش کی بنیاد پر سب سے زیادہ کاروبار پاکستان میں ہوتا ہے جو کہ کل معیشت کا 33 فیصد ہے۔ جب کہ بنگلہ دیش میں یہ شرح 25 اور بھارت اور سری لنکا میں 30 فیصد ہے۔
سمیع اللہ طارق کے مطابق ایف اے ٹی ایف کی کئی شرائط میں سے ایک معیشت کو دستاویزی شکل دینا ہے، گورنر سٹیٹ بینک کے لیے یہ کرنا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں۔
بچت اور سرمایہ کاری میں اضافہ
پاکستان میں بچت کی شرح بھی خطے کے دیگر ملکوں کے مقابلے میں کم ہے جسے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی بچتیں بڑھنے سے سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ ہو گا۔
سٹیٹ بینک کے گورنر کی حیثیت سے ڈاکٹر رضا باقر کے لیے شرح سود میں کمی بھی کسی اہم چیلنج سے کم نہیں ہے کیونکہ اس وقت ملک میں شرح سود بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے نجی شعبہ کم قرضے لے رہا ہے، جس سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ بینکنگ نظام میں اصلاحات، چھوٹے کاروباری طبقے اور ہاؤسنگ کے شعبے کو قرضے فراہم کرنے کی جانب بینکوں کو راغب کرنا از حد ضروری ہے۔
روپے کی قدر میں استحکام
سٹیٹ بینک کا کام ملک میں روپے کی قدر کو مستحکم رکھنا ہے، لیکن گزشتہ کئی ماہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ نئے گورنر کے لیے روپے کی قدر کو مستحکم کرنا ایک اہم چیلنج ہو گا، لیکن اقتصادی ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی گورنر سٹیٹ بینک اور وزیر اعظم عمران خان کی موجودہ معاشی ٹیم سے کچھ زیادہ پرامید دکھائی نہیں دیتے۔
ان کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک پاکستانی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر کو نہیں روک سکتا کیونکہ اس کا تعلق تجارتی خسارے سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملکی برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن ہے جو ماضی کے آئی ایم ایف پروگراموں کے سبب بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو قرضے کی مدد سے مستحکم کرنے کا طریقہ مصنوعی ہے اور اس سے معیشت کی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
تاہم قیصر بنگالی کے مطابق ہمارے ہاں بینکنگ قوانین کافی مضبوط اور مناسب ہیں اور ان میں کسی خاص تبدیلی کی ضرورت نہیں۔
اسٹیٹ بینک کی خود مختاری
ادھر بینکنگ کے شعبے سے کئی دہائیوں تک منسلک رہنے والے ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ رضا باقر کے لیے سب سے اہم چیز مرکزی بینک کی خودمختاری کو برقرار رکھنا ہے۔ ان کے مطابق سٹیٹ بینک کے سابق گورنر سے ان کی مدت ملازمت مکمل ہونے سے قبل ہی استعفیٰ مانگنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ مرکزی بینک اب بھی حکومتی مشینری کے ماتحت ہے۔
شاہد حسن صدیقی کے مطابق آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کا نیا معاہدہ آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے اور ایک بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ پاکستان کے لیے کتنی نرم شرائط پر قرضہ لینے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط ایسی ہونی چاہیئیں جس سے معیشت میں استحکام کے ساتھ ساتھ شرح نمو میں بھی کمی نہ ہو کیونکہ اس سے غربت اور بے روزگاری بڑھتی ہے
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو مختلف طرح کے چیلنجز درپیش ہیں۔ معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے وہ بنیادی اقدامات کرنے پڑیں گے جن کے متعلق اب تک صرف بیانات ہی دیئے جاتے رہے ہیں۔ ان اقدامات میں سے معیشت کو دستاویزی شکل دینا اور ٹیکس نیٹ میں توسیع سرفہرست ہے، لیکن بدعنوانی کے راستے بند کیے بغیر اصلاحات سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔