ناسا کے سائنس دانوں نے اُس پاؤڈر کا تجزیہ کیا ہے جِس کا نمونہ گذشتہ ماہ ’کریوسٹی‘ نے مریخ کے ایک پہاڑ کو کھود کر حاصل کیاتھا
واشنگٹن —
امریکی خلائی تحقیق کے مرکز، ناسا نے کہا ہے کہ خلائی گاڑی ’مارس کریوسٹی روور‘ نے قطعی ثبوت اکٹھا کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک وقت تھا جب سیارے پر زندگی کے آثار نمایاں تھے۔
ناسا کے سائنس دانوں نے اُس پاؤڈر کا تجزیہ کیا ہے جِس کا نمونہ گذشتہ ماہ ’کریوسٹی‘ نے مریخ کے ایک پہاڑ کو کھود کر حاصل کیا تھا۔
اُن کا کہنا ہے کہ پہاڑ میں معدنیات والی وہ مٹی موجود ہےجو آبی ماحولیات کے لیے لازم قرار دی جاتی ہے۔
اُنھیں کچھ عناصر کے ایسے نمونے بھی ملے ہیں جو حیات کی نشو نما کے لیے ضروری ہیں، جن میں ہائڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن شامل ہیں۔
سائنس داں، جان گروزنگر کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا کہ مریخ پر پینے کے لیے وافر مقدار میں بے ضرر پانی موجود تھا۔
کریوسٹی میں ایسی مشنری نہیں ہے جس سے ’مائکروبس‘ یعنی خرد حیاتیاتی یا جراثیم کے آثار کا پتا لگ سکے، جو آج کل مریخ پر پائے جاتے ہوں یا پھر اُن کے ’فوسلز‘ سے پردہ اُٹھ سکے جو اب ناپید ہوچکے ہوں۔
سائنس داں اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب مریخ پر نسبتاً گرم اور نمی کا ماحول ہوا کرتا تھا، جو بعدازاں سرد ریگستان میں بدل گیا۔
ناسا کے سائنس دانوں نے اُس پاؤڈر کا تجزیہ کیا ہے جِس کا نمونہ گذشتہ ماہ ’کریوسٹی‘ نے مریخ کے ایک پہاڑ کو کھود کر حاصل کیا تھا۔
اُن کا کہنا ہے کہ پہاڑ میں معدنیات والی وہ مٹی موجود ہےجو آبی ماحولیات کے لیے لازم قرار دی جاتی ہے۔
اُنھیں کچھ عناصر کے ایسے نمونے بھی ملے ہیں جو حیات کی نشو نما کے لیے ضروری ہیں، جن میں ہائڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن شامل ہیں۔
سائنس داں، جان گروزنگر کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا کہ مریخ پر پینے کے لیے وافر مقدار میں بے ضرر پانی موجود تھا۔
کریوسٹی میں ایسی مشنری نہیں ہے جس سے ’مائکروبس‘ یعنی خرد حیاتیاتی یا جراثیم کے آثار کا پتا لگ سکے، جو آج کل مریخ پر پائے جاتے ہوں یا پھر اُن کے ’فوسلز‘ سے پردہ اُٹھ سکے جو اب ناپید ہوچکے ہوں۔
سائنس داں اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب مریخ پر نسبتاً گرم اور نمی کا ماحول ہوا کرتا تھا، جو بعدازاں سرد ریگستان میں بدل گیا۔