پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے اراضی کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔ لیکن پاکستان کے سیاسی اور قانونی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا نیب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو وطن واپس لا سکتی ہے؟
بعض تجزیہ کار اسے حکومت کی 'کور اپ' پالیسی قرار دے رہے ہیں۔ البتہ، حکومتی ترجمانوں کا یہ کہنا ہے کہ اگر نیب نے درخواست کی تو سابق وزیر اعظم کو وطن واپس لانے میں کردار ادا کیا جائے گا۔
نیب کے ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ میر شکیل الرحمٰن اراضی کیس میں نواز شریف کو طلبی کا نوٹس بھیجا گیا۔ لیکن وہ حاضر نہیں ہوئے۔ لہذٰا نیب نے اُن کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
خیال رہے کہ نیب پاکستان کے میڈیا ادارے 'جنگ گروپ' کے زیرِ حراست مالک میر شکیل الرحمٰن سے 1986 میں اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ کیس میں تحقیقات کر رہا ہے۔ نواز شریف اس وقت پنجاب کے وزیر اعلٰی تھے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے نیب کے اس اقدام کی مذمت کی تھی۔ شہباز شریف کا موقف ہے کہ نواز شریف عدالتی حکم پر بیرون ملک علاج کرانے گئے ہیں۔ لہذٰا نیب کا یہ اقدام توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
نیب پنجاب کے سابق ڈائریکٹر بریگیڈئر (ر) فاروق حمید کا کہنا ہے کہ نیب نے جس کیس میں نواز شریف کو طلب کیا، وہ بظاہر اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق ہے۔
اُن کے بقول نواز شریف کو اپنا جواب جمع کرانا ہو گا۔ نیب ایک دو مرتبہ اور وارنٹ گرفتاری جاری کرے گا، جس کے بعد نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق حمید نے بتایا کہ ماضی میں نیب نے متحدہ عرب امارات سمیت مختلف ملکوں سے اشتہاری ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔
بریگیڈئر (ر) فاروق حمید کہتے ہیں نیب کے پاس قانونی راستہ ہے۔ نیب دفترِ خارجہ کے توسط سے برطانوی حکومت سے رابطہ کر سکتا ہے کہ ایک اشتہاری اُن کے ملک میں پناہ لیے ہوئے۔
پاکستان کے سینئر صحافی اور کام نگار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونا کوئی سنجیدہ بات نہیں۔
سہیل وڑائچ کے بقول حکومت نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کی سیاسی غلطی کو کور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ "یہ حکومت کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ کیوں کہ حکومت کو یہ احساس بعد میں ہوا کہ نواز شریف کو باہر بھیج کر اُن سے غلطی ہوئی۔"
لیکن سہیل وڑائچ کے بقول نواز شریف کو باہر بھیجنے کا فیصلہ صرف حکومت کا ہی نہیں بلکہ اس میں ریاستی اداروں کی بھی مرضی شامل تھی۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ "جس کیس میں نواز شریف کے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں وہ اتنا پرانا ہے کہ اُس وقت جیو نیوز نہیں ہوتا تھا۔ لیکن بس حکومت مخالفین کو سبق سکھانے پر تلی ہوئی ہے۔"
اُن کے بقول عمران خان کو یہ غلط فہمی ہے کہ اُن کی حکومت کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے۔ ملک میں حکومت کے خلاف جو تنقیدی آوازیں ابھرتی ہیں، اُنہیں بھی خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سینئر صحافی اور تجزی کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی گرفتاری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ محض 'کور اپ' پالیسی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد ولید نے کہا کہ پہلے تو حکومت نے خود تسلیم کیا کہ نواز شریف شدید بیمار ہیں۔ اور ان کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں۔
SEE ALSO: کیا نواز شریف کی بھارت پالیسی نقصان دہ تھی؟لیکن احمد ولید کے بقول نواز شریف کے باہر جاتے ہی وزیر اعظم نے بیان دیا کہ نواز شریف بالکل تندرست اور خود جہاز کی سیڑھیاں چڑھ کر گئے۔
احمد ولید کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی رائے تو یہ ہے کہ شاید کوئی ڈیل ہوئی ہے یا حکومت کی کوئی مجبوری تھی۔ جس بنا پر نواز شریف کو فوراً باہر جانے کی اجازت ملی تھی۔
احمد ولید کے بقول "حکومت نے اُس وقت بھی یہ ملبہ عدالتوں پر ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اصل میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اںہیں باہر جانے کی اجازت دی تھی۔ لیکن حکومت نے جو سفارشات دی تھیں اُسی کے مطابق نواز شریف کو باہر بھیجا گیا۔"
حکومتِ پنجاب کی ترجمان مسرت جمشید چیمہ کے بقول نواز شریف کو عدالتی حکم پر باہر جانے دیا گیا۔ نواز شریف کو مشروط اجازت ملی تھی کہ وہ اپنا علاج کرائیں گے۔
البتہ، نواز شریف کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ ضمانت میں توسیع کے لیے پنجاب حکومت سے رجوع کریں گے۔ اُن کے بقول نواز شریف جب سے لندن گئے ہیں، ان کے علاج میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اُنہوں نے غلط بیانی کی۔
مسرت چیمہ کے بقول اگر نیب نے نواز شریف کو واپس بلانے کے لیے حکومت سے رجوع کیا تو اس ضمن میں حکومت اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گی۔
خیال رہے کہ نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ نے اکتوبر 2019 میں طبی بنیادوں پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ علاوہ ازیں اسلام ہائی کورٹ نے بھی العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم کی سزا چھ ہفتوں کے لیے معطل کر دی تھی۔
حکومت نے نواز شریف کو بیرونِ ملک علاج کے لیے جانے کی غرض سے انڈیمنٹی بانڈ کی شرط رکھی تھی جسے لاہور ہائی کورٹ نے ختم کر دیا تھا۔
عدالت نے بیان حلفی کی بنیاد پر نواز شریف کو چار ہفتوں کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی تھی۔ جس کے بعد نواز شریف 19 نومبر کو لندن روانہ ہو گئے۔