طالبان کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کے لیے بنائی گئی افغان حکومتی ٹیم کی خاتون رُکن کابل کے قریب ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہو گئی ہیں۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ 45 سالہ فوزیہ کوفی جمعے کی شام پروان صوبے سے دارالحکومت کابل واپس آ رہی تھیں جب نامعلوم مسلح افراد نے کابل کی ایک مارکیٹ کے قریب ان کی گاڑی پر حملہ کیا۔
فوزیہ کوفی افغان پارلیمنٹ کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر رہ چکی ہیں اور وہ افغانستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم اور طالبان کی پالیسیوں کی ناقد سمجھی جاتی ہیں۔
فوزیہ کوفی پر حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی جب کہ طالبان کا کہنا ہے کہ ان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فوزیہ کوفی پر اس سے قبل بھی کئی قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔
افغان امن مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد معصوم ستانکزئی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ فوزیہ کوفی حملے میں زخمی ہوئی ہیں۔ تاہم ان کی حالت اب بہتر ہے۔
افغان صدر اشرف غنی اور قومی مفاہمت کی اعلٰی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے فوزیہ کوفی پر حملے کی مذمت کی ہے۔
عبداللہ عبداللہ نے افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مجرموں کو گرفتار کرے اور حملے کے پس پردہ مقاصد کا پتا لگائے۔
افغان دارالحکومت کابل کے آس پاس کے علاقوں میں حال ہی میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری کسی عسکریت پسند گروپ کی جانب سے قبول نہیں کی گئی۔ تاہم چند واقعات میں طالبان سے منسلک افغان گروپوں نے ان میں سے کچھ حملوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔
صدر غنی حکومت نے ان حملوں کی تحقیقات کرنے کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات، اس معاہدے کے تحت ہو رہے ہیں جو فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پایا تھا۔
معاہدے کے تحت افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے آغاز سے قبل افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدی اور طالبان نے اپنی تحویل سے افغان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کرنے تھے۔
افغان حکومت نے باقی ماندہ 400 طالبان قیدیوں میں سے جمعے کو 80 قیدی رہا کر دیے، جس کے بعد اطلاعات کے مطابق چند روز بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہو رہا ہے۔
خیال رہے کہ دوحہ میں افغان طالبان کا سیاسی دفتر قائم ہے اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور بھی یہیں ہوئے تھے۔
فوزیہ کوفی پر یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب اقوام متحدہ کے مبصرین نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ انسانی حقوق کے کارکنوں پر ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔