بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے ایک سابق وزیرِ اعلیٰ اور ریاست کی سب سے پرانی سیاسی جماعت، ’نیشنل کانفرنس‘ کے نائب صدر عمر عبد اللہ نے افغانستان میں قیامِ امن کے لئے طالبان کے ساتھ روس میں ہونے والے مذاکرات میں نئی دہلی کی غیر ریاستی شرکت کی با لواسطہ نکتہ چینی کی ہے۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’ایسا (کیا جانا) بھارت میں نریندر مودی کی حکومت کے اس مؤقف کے منافی ہے جو انھوں نے کشمیر میں اسی طرح کا عمل شروع کرنے کے سلسلے میں اختیار کر رکھا ہے‘‘۔
اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں مرکزی دھارے سے باہر یعنی استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں سے غیر سرکاری مذاکرات کرنے سے انکار کر رہی ہے۔ لیکن، افغانستان میں طالبان کے ساتھ ہونے والے سلسلہٴ جنبانی میں شامل ہونے کے لئے تیار ہوگئی ہے۔
عمر عبداللہ بھارت کے جونئر وزیرِ خارجہ بھی رہ چکے ہیں۔ جمعے کو سماجی ویب سائٹ ’ٹوٹر ڈاٹ کام‘ کا رُخ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا: "اگر ایسے مکالمے میں جس میں طالبان بھی شامل ہیں غیر سرکاری شرکت مودی حکومت کے لئے قابلِ قبول ہے تو جموں و کشمیر میں مرکزی دھارے سے باہر کے اسٹیک ہولڈرس یا متعلقین سے غیر سرکاری مکالمہ کیوں نہیں ہوسکتا؟ جموں و کشمیر کی تخفیف شدہ خود مختاری اور اسے بحال کرنے کے بارے میں غیر سرکاری مکالمہ کیوں نہیں؟"
اس سے پہلے جمعرات کو بھارت کی وزارتِ خارجہ نے روس کے دارالحکومت ماسکو میں افغانستان میں قیامِ امن کے لئے ہونے والی کانفرنس میں بھارت کی شرکت کی تصدیق کی تھی۔ تاہم، اس نے وضاحت کی تھی کہ طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات غیر سرکاری سطح پر ہو رہے ہیں۔ روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد افغان طالبان کو سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لئے ان کے اور کابل حکومت کے مابین براہِ راست بات چیت کے لئے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔
روس نے کانفرنس میں 12 ممالک کو مدعو کیا تھا جن میں بھارت، پاکستان، ایران، امریکہ اور چین بھی شامل ہیں۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے اس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد افغانستان کے دوست ممالک اور علاقائی ممالک کو ایک ساتھ بٹھانا ہے تاکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان موجود خلیج کو کم کیا جاسکے اور دونوں بلا واسطہ بات چیت شروع کرنے پر آمادہ ہوں۔
بھارتی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ"بھارت افغانستان میں امن اور مفاہمت کے لئے کی جانے والی ان تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے، جو وہاں باہمی اتحاد اور کثرتِ وجود کو محفوظ رکھ سکیں اور ملک میں حفاظت، استحکام اور خوشحالی لا سکیں۔ بھارت کی یہ متواتر پالیسی رہی ہے کہ اس طرح کی کوششیں کی قیادت افغانستان کرے۔ وہی ان کا مالک ہو اور وہی ان کا کنٹرول بھی سنبھالے ہوئے ہو اور ان میں افغانستان کی حکومت شامل ہو۔"