اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال کے ابتدائی تین ماہ کے دوران افغانستان میں جاری لڑائی میں 500 عام شہری ہلاک ہوئے جن میں ایک تہائی تعداد بچوں کی تھی۔
عالمی ادارے کے اعانتی مشن برائے افغانستان کی جانب سے پیر کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال یکم جنوری سے 31 مارچ کے دوران ہونے والی لڑائی اور جھڑپوں میں 760 عام شہری زخمی بھی ہوئے۔
عالمی ادارے کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران ہونے والے جانی نقصانات میں سے 55 فی صد طالبان، داعش اور حکومت مخالف دیگر گروہوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے عام شہریوں میں 152 بچے جب کہ 60 خواتین بھی شامل تھیں۔ اس عرصے کے دوران 256 بچے اور 108 خواتین زخمی بھی ہوئیں۔
تاہم رپورٹ کے مطابق طالبان اور دیگر حکومت مخالف گروہوں کے بجائے افغان حکومت اور افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کی کارروائیوں کے دوران زیادہ بچوں کی جان گئی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اقوامِ متحدہ نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا ہے کہ گزشتہ تین ماہ کے عرصے کے دوران بیشتر ہلاکتیں مارچ کے مہینے میں ایسے وقت ہوئیں جب یہ امید کی جا رہی تھی کہ افغان حکومت اور طالبان محاذ آرائی ختم کرنے کی سنجیدہ کوششیں کریں گے۔
رپورٹ میں افغانستان کے لیے اقوامِ متحدہ کی خصوصی ایلچی اور عالمی ادارے کے افغانستان کے لیے اعانتی مشن کی سربراہ ڈیبرا لیون نے افغان تنازع کے فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ فوری جنگ بندی کرکے امن مذاکرات کا آغاز کریں۔
ان کے بقول افغانستان میں عام شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ اور افغان قوم کو ایک بہتر مستقبل کی امید دلانے کے لیے ضروری ہے کہ تشدد کو فوری طور پر روکا جائے۔
اقوامِ متحدہ کی یہ رپورٹ امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کے اس بیان کے ایک روز بعد سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے کرونا وائرس کی وبا کے پیشِ نظر طالبان سے تشدد میں کمی لانے اور اپنے تمام حملے روکنے کی اپیل کی تھی۔
واضح رہے کہ طالبان افغان حکومت کی جانب سے ماہِ رمضان میں جنگ بندی کی تجویز کو پہلے ہی رد کرچکے ہیں۔
طالبان نے الزام لگایا ہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد سے گریزاں ہے۔