مودی کا دورہٴجاپان: دفاعی، معاشی تعلقات کا فروغ سرِ فہرست

فائل

وہ مینوفیکچرنگ اور زیریں ڈھانچے کے شعبوں میں زیادہ جاپانی سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں۔ اُن کی نگاہ سول نیوکلیئر تعاون معاہدے میں پیش رفت کے حصول پر لگی ہوئی ہے، جس کے ذریعے بھارت جاپان سے جوہری ایندھن اور ٹیکنالوجی درآمد کر سکے گا

بھارتی وزیر اعظم ہفتے کو جاپان کے پانچ روزہ دورے پر روانہ ہو رہے ہیں، جس کا مقصد دفاعی اور معاشی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔

نئی دہلی سے آنجنا پسریچا نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ دونوں ایشیائی ملکوں کے فروغ پاتے تعلقات دونوں ممالک کی سوچ کے تناظر میں ہیں، جس میں چین کی طاقت کے توازن کو مدِ نظر رکھا جا رہا ہے، چونکہ دونوں ملکوں کے اُس کے ساتھ علاقائی تنازعات ہیں۔

وزیر اعظم نریندرا مودی ایک وسیع ایجنڈا لے کر جاپان جا رہے ہیں۔

وہ مینوفیکچرنگ اور زیریں ڈھانچے کے شعبوں میں زیادہ جاپانی سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں۔ اُن کی نگاہ سول نیوکلیئر تعاون معاہدے میں پیش رفت کے حصول پر لگی ہوئی ہے، جس کے ذریعے بھارت جاپان سے جوہری ایندھن اور ٹیکنالوجی درآمد کر سکے گا۔

دونوں ملک ایک سمجھوتے کو زیر بحث لائیں گے جس کا مقصد دفاعی رابطے بڑھانا اور پانی اور خشکی میں کارروائی کی صلاحیت کے قابل ٹیکنالوجی کی تلاش کرنے کے کام میں معاونت اور بھارتی بحریہ کے لیے بچاؤ کے طیارے کی ممکنہ خریداری شامل ہے۔ جاپانی وزیر اعظم کے علاوہ، بھارتی رہنما جاپان کے وزیر دفاع سے ملاقات کریں گے۔


حکمتِ عملی کے ماہر، بھارت کرناد نئی دہلی میں قائم ’سینٹر فور پالیسی ریسرچ‘ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین کے حاوی ہونے کے طرز عمل کے باعث وہ سلامتی کی قریبی ساجھے داری قائم کرنے پر راغب ہیں۔

بقول اُن کے، ایک طرف جاپان ہے جبکہ دوسری طرف بھارت ہے، جو چین کے ساتھ شرائط منوانے کا خواہاں ہے۔ ایک لحاظ سے، اس کا مقصد چین کو نکیل ڈالنا ہے، حالانکہ دونوں ممالک بیجنگ کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے، اسے دھچکہ لگنے کا کوئی خوف نہیں۔ سرحد پر باڑ لگانے کی بات کرکے آپ کس فوجی تعاون کے نقطہٴنظر کی بات کررہے ہیں جس کے باعث بیجنگ دوبارہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ کیا اُسے زیادہ جارحانہ انداز اپنانا چاہیئے یا پھر اُسے اپنی پالیسیوں اور عزائم کو وسعت دینی چاہیئے۔

بھارت کا طویل مدت سے چین کے ساتھ تنازع چلا آرہا ہے اور اُسے یہ خطرہ لاحق ہے کہ ہمسایہ ملکوں میں بندرگاہوں کا سلسلہ قائم کرکے وہ بھارت کو گھیرے میں لارہا ہے۔ مشرقی بحیرہ چین کے جزیروں پر تنازع پر جاپان اور چین کے درمیان تناؤ میں کشیدگی آتی جارہی ہے۔

تاہم، تجارت ایک ایسا محرک ہے جس نے بھارتی وزیر اعظم کو اس بات پر مجبور ہونا پڑا کہ اپنے بیرون ملک دوروں میں جنوبی ایشیا کے علاوہ جاپان کو منتخب کیا۔


مسٹر مودی کےوفد میں کاروباری افراد کی بڑی تعداد موجود ہوگا۔ تیز رفتار ریلوے اور سمارٹ شہروں کی تعمیر کے سلسلے میں جاپان کی طرف رُخ کرکے، وہ اپنے ایجنڈے کے اُس حصے کی غمازی کرتے ہیں جن کا مقصد بھارت کو اکیسویں صدی کی طرف لے جانا ہے۔

منوج جوشی نئی دہلی میں قائم ’آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن‘ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ باہم استفادہ کرنے کی خواہش ایشیا کو دوسری اور تیسری بڑی معیشتوں کو قریب لارہی ہے۔

ٹوکیو کے اخبار ’دِی نِکے‘ نے رپورٹ دی ہے کہ جاپان چین پر اپنا انحصار کم کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ کہ دونوں ممالک بھارت میں نادر معدنی دھاتوں کی تلاش کی مشترکہ کوششیں کرنےکے بارے میں سمجھوتے پر دستخط کرنے پر تیار ہیں، جنھیں جاپان اب تک چین سے خریدتا آیا ہے۔

مسٹر مودی جاپان میں کوئی اجنبی نہیں۔ جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، اُنھوں نے دو بار جاپان کا دورہ کیا تھا اور دونوں دوروں میں اُن کی وزیر اعظم شِنزو آبے سے ملاقات ہوئی تھی۔