واشنگٹن —
ایسے میں جب جوہری ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی کوششیں جاری ہیں، بھارت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی سولین جوہری تنصیبات جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کی وسیع تر نگرانی کے لیے کھول دے گا۔ نئی دہلی سے ’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ کا کہنا ہے کہ امریکہ اور جاپان جیسے ممالک کے ساتھ جوہری تجارت کو فروغ دینے کے حوالے سے یہ ایک کلیدی اقدام ہے۔
بھارت کی وزارت ِخارجہ کے ترجمان، سید اکبرالدین کا کہنا ہے کہ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے ساتھ یہ معاہدہ بھارت کی طرف سے جوہری توانائی کے ذمہ دارانہ استعمال کا عکاس ہے۔
ترجمان کے الفاظ میں، ’حکومت فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ اس معاہدے کی پاسداری کے لیے اضافی پروٹوکول کی منظوری دے گی اور یہ اقدام ہماری بین الاقوامی اصول و ضوابط کی پابندی کو ظاہر کرتا ہے‘۔
اِس اضافی پروٹوکول سے جوہری توانائی پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے کے لیے بھارت کی سویلین جوہری تنصیبات تک رسائی مزید آسان ہوجائے گی۔
نئی دہلی میں ’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ڈفنس اسٹڈیز اینڈ انالیسز ‘سے منسلک، راجیو ناین اِس اضافی پروٹوکول کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اقدام بنیادی طور پر اعتمادسازی کی غرض سے اٹھایا گیا ہے، کیونکہ یہ معاہدہ عمومی طور پر مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ اِس لیے، بھارت نے یہ اقدام اضافی یقین دہانی کے طور پر کیا ہے۔
نئی دہلی میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ بھارت کی نئی حکومت کا امریکہ اور جاپان جیسے ممالک کے ساتھ جوہری تجارت کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔
توقع ہے کہ وزیر اعظم نریندرا مودی اگست میں جاپان اور ستمبر میں امریکہ کا دورہ کریں گے۔ سول توانائی کے شعبے میں تعاون ایجنڈے پر سرفہرست ہوگا۔
پیر کے روز واشنگٹن نے کہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر تعاون کو توسیع دینے میں سنجیدہ ہے۔
ٹوکیو نے بھی کہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ جوہری تجارت بڑھانے کا خواہشمند ہے۔
تجزیہ کار، ناین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں بھارت میں کئی بڑے نیوکیئر پلانٹس لگانے کے امکانات واضح ہیں، کیونکہ بھارت ملک میں توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جوہری توانائی کو بروئے کار لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
بھارت کا ارادہ ہے کہ وہ 2050ء تک اپنی توانائی کا چوتھائی حصہ جوہری ذرائع سے حاصل کرے گا۔
بھارت کی وزارت ِخارجہ کے ترجمان، سید اکبرالدین کا کہنا ہے کہ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے ساتھ یہ معاہدہ بھارت کی طرف سے جوہری توانائی کے ذمہ دارانہ استعمال کا عکاس ہے۔
ترجمان کے الفاظ میں، ’حکومت فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ اس معاہدے کی پاسداری کے لیے اضافی پروٹوکول کی منظوری دے گی اور یہ اقدام ہماری بین الاقوامی اصول و ضوابط کی پابندی کو ظاہر کرتا ہے‘۔
اِس اضافی پروٹوکول سے جوہری توانائی پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے کے لیے بھارت کی سویلین جوہری تنصیبات تک رسائی مزید آسان ہوجائے گی۔
نئی دہلی میں ’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ڈفنس اسٹڈیز اینڈ انالیسز ‘سے منسلک، راجیو ناین اِس اضافی پروٹوکول کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ اقدام بنیادی طور پر اعتمادسازی کی غرض سے اٹھایا گیا ہے، کیونکہ یہ معاہدہ عمومی طور پر مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ اِس لیے، بھارت نے یہ اقدام اضافی یقین دہانی کے طور پر کیا ہے۔
نئی دہلی میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ بھارت کی نئی حکومت کا امریکہ اور جاپان جیسے ممالک کے ساتھ جوہری تجارت کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔
توقع ہے کہ وزیر اعظم نریندرا مودی اگست میں جاپان اور ستمبر میں امریکہ کا دورہ کریں گے۔ سول توانائی کے شعبے میں تعاون ایجنڈے پر سرفہرست ہوگا۔
پیر کے روز واشنگٹن نے کہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر تعاون کو توسیع دینے میں سنجیدہ ہے۔
ٹوکیو نے بھی کہا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ جوہری تجارت بڑھانے کا خواہشمند ہے۔
تجزیہ کار، ناین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں بھارت میں کئی بڑے نیوکیئر پلانٹس لگانے کے امکانات واضح ہیں، کیونکہ بھارت ملک میں توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جوہری توانائی کو بروئے کار لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
بھارت کا ارادہ ہے کہ وہ 2050ء تک اپنی توانائی کا چوتھائی حصہ جوہری ذرائع سے حاصل کرے گا۔