سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ گمشدہ افراد کا معاملہ حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس معاملے کو سیاسی نہیں بنانا چاہیے۔ یہ کیس اب خارج نہیں کرنے دیں گے۔ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مبنی تین رکنی بینچ نے منگل کو جبری گمشدگیوں سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔
کیس کی سماعت کا آغاز درخواست گزار خوش دل خان ملک کے دلائل سے ہوا جن کا کہنا تھا کہ آئین نے 1974 میں لاپتا یا گمشدہ افراد سے متعلق راستہ بتا دیا تھا۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن نے اپنا کام نہیں کیا۔ فیڈریشن اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہی۔ عدالت حکم دے تاکہ مسئلے پر قانون سازی ہو جائے۔ قانون سازی سے عدالتوں پر بوجھ کم ہو گا۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عدالت پارلیمان کو قانون سازی کا حکم نہیں دے سکتی۔ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔
اس دوران بینچ کے رکن جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی۔ صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سماعت کے دوران درخواست گزار اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین بھی روسٹرم پر آئے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شعیب شاہین سے کہا کہ آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
شعیب شاہین نے کہا کہ اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا ہے۔
شعیب شاہین نے جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اعتزاز احسن نے درخواست میں لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نقطہ اُٹھایا ہے۔
انہوں نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے حکومتی کمیشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔ یہ کمیشن 2011 میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران بنا۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اعتزاز احسن اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرنا چاہتے ہیں؟ اعتزاز احسن خود پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر بھی رہے ہیں۔
اس پر شعیب شاہین نے کہا کہ جب کمیشن بنا تھا اس وقت شاید اعتزاز احسن وزیر نہیں تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز احسن کیا اس وقت بھی پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں؟ اس پر ان کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ ابھی پیپلز پارٹی میں ہیں۔
SEE ALSO: سیکیورٹی ادارے اور خفیہ ایجنسیاں بلوچ طلبہ کو لاپتا کرنے میں ملوث ہیں: عدالتی کمیشن کی رپورٹشعیب شاہین نے لاپتا افراد کے کمیشن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتا ہیں۔
اس پر بینچ کے رکن جسٹس محمد مظہر نے کہا کہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کتنے لوگ بازیاب ہوئے۔
اس دوران شعیب شاہین نے شیخ رشید، صداقت عباسی اور تحریکِ انصاف کے حامی یا اسے چھوڑنے والے دیگر افراد کی گمشدگیوں کا معاملہ اُٹھایا۔
اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ سب لوگ خود ہمارے سامنے درخواست گزار بنے ہیں؟ کیا یہ سب وہ لوگ ہیں جو خود وسائل نہیں رکھتے کہ عدالت آ سکیں؟ آپ اس معاملے کو سیاسی بنانا چاہتے ہیں تو یہ فورم نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شیخ رشید کل یہ کہہ دیں کہ انہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ شعیب شاہین کون ہیں میرا نام لینے والا؟
انہوں نے کہا کہ اعتزاز احسن نے یا تو کسی کو اپنے سامنے اٹھاتے ہوئے دیکھا ہو تو وہ بات کریں۔ یا کوئی خود آکر کہے مجھے اغوا کیا گیا تھا تو ان کا معاملہ سنا جا سکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ آپ نے صرف ایک سیاسی جماعت کے لوگوں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سب ہماری پارٹی چھوڑ گئے۔ اس کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لینا ہے۔
اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کیس اب خارج نہیں کرنے دیں گے۔ اس مسئلے کا حل ڈھونڈیں گے۔ پاکستان ہم سب کا ہے۔ مل کر ہی چیزیں ٹھیک کرنا ہوں گی۔ ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے سے نفرتیں کم نہیں ہوتیں۔ یہ کام بہت کر لیا ہے۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ لاپتا افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنا چاہتے ہیں۔ لاپتا افراد میں کئی وہ لوگ بھی ہیں جو جہادی تنظیموں کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس طرح بھی دنیا میں کہیں نہیں ہوتا کہ تنظیمیں جوائن کر لو۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت بدھ کے لیے ملتوی کر دی۔