رسائی کے لنکس

تاحیات نا اہلی کیس کی سماعت؛ 'اگر 2002 میں قائدِ اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہو جاتے'


تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ میں جاری کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن لڑنے کی جو اہلیت بیان کی گئی ہے اس پر تو قائدِ اعظم بھی پورے نہیں اُتر سکتے تھے۔

تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت براہِ راست نشر کی گئی۔

سات رکنی بینچ کے سربراہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں جب کہ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی فیصلے پر نظرِ ثانی ہونی چاہیے۔ آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا قانون سازی کے ذریعے پانچ سال کر دی گئی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ الیکشن ایکٹ کی تائید کرتے ہیں کیوں کہ یہ وفاق کا بنایا گیا قانون ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ویڈیو لنک پر موجود چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز سے استفسار کیا کہ کیا آپ بھی اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں؟ اس پر چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز نے بھی الیکشن ایکٹ کی حمایت کر دی۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 62 اور 63 میں فرق کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ممبران کی اہلیت جب کہ 63 نااہلی سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 کی وہ ذیلی شقیں مشکل پیدا کرتی ہیں جو کردار کی اہلیت سے متعلق ہیں۔ کسی کے کردار کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ کیا اٹارنی جنرل اچھے کردار کے مالک ہیں؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس سوال کا جواب نا دیجیے گا صرف مثال کے لیے پوچھ رہا ہوں۔ اٹارنی جنرل کے اسپورٹرز کہیں گے آپ اعلی کردار جب کہ مخالفین بدترین کردار کا مالک کہیں گے۔ اسلامی معیار کے مطابق تو کوئی بھی اعلی کردار کا مالک نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

'اگر 2002 میں قائدِ اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہو جاتے'

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم تو گنہگار ہیں اور اللہ سے معافی مانگتے ہیں۔ آرٹیکل 62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ عدالت نے دی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈکلیریشن اپنی جگہ قائم ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر 2002 میں قائدِ اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہو جاتے، ایک مسلمان 'صادق' اور 'امین' کے الفاظ آخری نبی کے سوا کسی کے لیے استعمال کر ہی نہیں سکتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے جاؤں اور کوئی اعتراض کرے کہ یہ اچھے کردار کا نہیں تو مان لوں گا، ہم گنہگار ہیں تبھی کوئی مرتا ہے تو اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص توبہ کر کے عالم یا حافظ بن جاتا ہے تو بھی برے کردار پر تاحیات نااہل رہے گا؟ اگر اچھے کردار والا اصراف نہیں کر سکتا تو پھر وضو کے وقت پانی ضائع کرنے والا بھی نااہل ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہو چکا اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں ردوبدل ممکن ہے؟

واضح رہے کہ پاکستان کے آئین کی شق 62-ایف ون کے تحت نااہل قرار دیے گئے کسی بھی شخص کے لیے سزا کی مدت کا کوئی تعین نہیں کیا گیا تھا۔ اس لیے اس شق کے تحت بھی کسی شخص کو سزا سنائی گئی تو اس سے تعبیر کیا گیا کہ وہ کسی عوامی عہدے کے لیے تاحیات نا اہل ہے۔

ستمبر 2020 میں وجود میں آنے والے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اپریل 2022 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کا تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے خاتمہ کیا اور شہباز شریف کی قیادت میں حکومت قائم کی تو اس حکومت نے اپنے آخری دنوں میں جون 2023 الیکشن ایکٹ میں ترامیم منظور کیں۔

الیکشن اصلاحات بل 2017 میں ترمیم کی گئی اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل منظور کیا گیا۔ بل میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت الیکشن ایکٹ میں ترمیم تجویز کی گئی۔

الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا پانچ سال مقرر کی گئی۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 میں تبدیلی کے بعد پانچ سال سے زیادہ نااہلی کی سزا نہیں ہو گی اور متعلقہ شخص قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہو گا۔

اس بل کی سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد کہا جا رہا تھا کہ اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن اِن چیف جہانگیر ترین کو ہو گا جن کی تاحیات نااہلی ختم ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ نواز شریف اور جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت صادق اور امین نہ ہونے کی بنا پر نا اہل کر دیا گیا تھا۔

دوسری جانب سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو بھی توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی ضلع عدالت نے گزشتہ برس تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔ البتہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر دی تھی جس کے بعد اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان کی تاحیات نا اہلی برقرار ہے یا نہیں۔ کیوں کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کے انتخابات 2024 کے لیے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہو چکے ہیں جب کہ عمران خان کے مسترد کر دیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے دسمبر کے وسط میں ارکانِ پارلیمنٹ کی تاحیات نا اہلی کیس کی سماعت کے لیے سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے مختلف بار کونسلز اور دیگر درخواست گزاروں کی اپیلیں یکجا کرکے کیس سماعت کے لیے مقرر کیا۔

XS
SM
MD
LG