پاکستان کے ایک معروف جریدے ’دی ہییرلڈ‘ کی جانب سے یہ اعزاز ہر سال رائے عامہ کی بنیاد پر اس شخصیت کو دیا جاتا ہے جنھوں نے کسی شعبے میں نمایاں کردار ادا کیا ہو اور اس کردار کی وجہ سے خبروں کا مرکز رہے ہوں۔
اس دفعہ میگزین کی طرف سے 10 شخصیات کو ’پرسن آف دی ائیر‘ کے اعزاز کے لئے نامزد کیا گیا تھا جن میں مشال خان کے علاوہ سابق وزیر اعطم میاں نواز شریف، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جسٹس آصف کھوسا، عائشہ گلالے، پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیرمین نجم سیھٹی اور مائرہ خان کے نام شامل تھے۔
’دی ہییرلڈ‘ کے ایڈیٹر ان چیف، بدر عالم کا کہنا تھا کہ مشال خان کو سن 2017ء کی اہم ترین شخصیت کا اعزاز دینے کا فیصلہ، ملک کے مختلف حصوں میں کئے گئے سروے کے نتائج اور 10 ججوں پر مشتمل ایک پینل کے فیصلے کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
مشال خان کے والد اقبال خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لوگوں نے اس سروے کے ذریعے شعور، فکر اور روشنی کو ووٹ دیا ہے۔ یہ اعزاز اس سوچ اور فکر کی جیت ہے جس کو مشال خان فروغ دیتے تھے۔ لوگوں نے اس سوچ اور فکر کو رد کیا ہے جو پاکستان میں نوجوانوں کو تاریکی کی طرف لے کرجاتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ سروے کے نتائج سے ایک واضح پیغام جاتا ہے کہ لوگ انتہا پسندی اور لڑائی جھگڑوں سے تنگ آ چکے ہیں وہ امن اور انصاف چاہتے ہیں۔
شعبہٴ صحافت کے طالب علم مشال خان کو اس سال اپریل میں مردان میں قائم باچہ خان یونیورسٹی میں توہین مذہب کے الزام میں ایک ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
اس کے بعد تحقیقات ہوئیں، گرفتاریاں ہوئیں اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی جس کی رپورٹ کے مطابق مشال پر لگنے والا توہین مذہب کا الزام غلط تھا۔ مردان پولیس کے مطابق، اس مقدمے میں اب تک 57 ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جبکہ چار ملزمان بدستور روپوش ہیں۔ اسکے علاوہ، اب تک 40 گواہوں کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں۔ لیکن، عدالت کی طرف سے فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔
مشال خان کے قتل کے بعد ان کی دو بہنوں کا تعلیمی سلسلہ خوف کی وجہ سے منقطع ہوگیا ہے اور اب وہ گھر میں پرائیوٹ تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔