خیبر پختونخوا میں جانوروں کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکنوں اور عام شہریوں نے چترال کے گول نیشنل پارک میں پاکستان کے قومی جانور مارخور کی تعداد میں مسلسل کمی پر محکمۂ جنگلی حیات کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق 2019 میں کیے جانے والے ایک سروے سے ظاہر ہوا تھا کہ گول نیشنل پارک میں لگ بھگ دو ہزار 800 مارخور تھے جن کی تعداد 2020 میں گھٹ کر تقریباََ 2000 تک رہ گئی ہے۔
چترال کے عمائدین کے مطابق مارخور کی حفاظت پر مامور نگہبانوں کے لیے مختص فنڈ کے خاتمے کے بعد انہوں نے خود ہی اس کا غیر قانونی شکار شروع کر دیا ہے جس کے بعد گول نیشنل پارک میں ان کی تعداد تیزی سے کم ہونا شروع ہوئی۔
چترال گول نیشنل پارک قومی جانور مارخور، قومی پرندہ چوکور، قومی درخت دیودار، قومی پھول چنبیلی اور قدرتی حسن کے حوالے سے مشہور ہے۔
مارخور کی تعداد میں یہ کمی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب علاقے میں اس کے غیر قانونی شکار پر مکمل پابندی ہے اور ٹرافی ہنٹنگ سیزن بھی شروع ہونے والا ہے۔
چیف کنزرویٹر وائلڈ لائف خیبر پختونخوا نے پشاور دفتر میں جمعرات کو مارخور کے شکار کی بولی میں مختلف آؤٹ فیٹرز کمپنیوں نے حصہ لیا۔
اس بولی میں سب سے مہنگا پرمٹ توشی شاشہ ون میں ایک لاکھ 60 ہزار 250 امریکی ڈالر میں فروخت ہوا۔ جب کہ توشی شاشہ-ٹو چترال میں پرمٹ ایک لاکھ 55 ہزار ایک سو امریکی ڈالر، گہریت چترال میں ایک لاکھ 25 ہزار اور کیاغ کوہستان میں ایک لاکھ 35 ہزار 150 ڈالر میں پرمٹ فروخت ہوئے۔
اس طرح اس برس خیبر پختونخوا کے لیے مختص چار لائسنسوں سے کل پانچ لاکھ 75 ہزار 500 امریکی ڈالر حاصل ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: امریکی شہری کا چترال میں 88 ہزار ڈالرز کے عوض مارخور کا شکارویلج کنزوریشن کمیٹی توشی کے جنرل سیکرٹری شہزادہ محمد امیر حسنات الدین کا کہنا ہے کہ گول نیشنل پارک چترال کے لیے حکومت فنڈز مختص کرتی تھی جس کے ذریعے اس قیمتی جانور کی نگہبانی کی جاتی تھی۔ البتہ گزشتہ کئی برسوں سے وفاق سے فنڈز کی عدم فراہمی سے پارک کی حفاظت پر مامور نگہبانوں کی تنخواہیں مسلسل بند ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ نگہبان خود ہی غیر قانونی شکار میں ملوث ہو گئے ہیں، کیوں کہ انھیں مارخور کے ٹھکانوں اور باہر نکلنے کے اوقات کار کا علم ہوتا ہے۔
پاکستان میں بلوچستان، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں کوہستان اور چترال کے علاقوں میں مارخور پایا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں ٹرافی ہنٹنگ اسکیم کے علاوہ شکار پر مکمل پابندی ہے۔
پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ کا باقاعدہ آغاز 98-1997 میں شروع کیا گیا تھا۔
اس اسکیم کا بنیادی مقصد مارخور کے غیر قانونی شکار کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔ اس کے علاوہ مقامی آبادی کو اس عمل میں شامل کر کے اس نایاب جانور کا تحفظ بھی ممکن بنانا تھا۔
ٹرافی ہنٹنگ کی اس اسکیم کے تحت شکاری کم عمر اور مادہ مارخور کا شکار نہیں کر سکتے۔
ٹرافی ہنٹنگ اسکیم کے تحت ملنے والی رقم کا 80 فی صد حصہ مقامی آبادی کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا ہے، جب کہ باقی ماندہ محکمے کے اکاؤنٹ میں جمع کیا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ نے چترال کے گول نیشنل پارک کے ڈویژنل فارسٹ افسر سید سرمد حسین شاہ سے حکومت کے اقدامات اور قومی جانور مارخور کی تعداد میں کمی کے حوالے سے مؤقف جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
SEE ALSO: کروڑوں روپوں کے عوض پاکستان کے قومی جانور کا شکارتاہم گول نیشنل پارک کے سابق چیئرمین اور بورڈ کے موجودہ رکن عالم زیب ایڈووکیٹ، شہزادہ محمد امیر حسنات الدین سے اختلاف کرتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عالم زیب ایڈووکیٹ نے بتایا کہ غیر قانونی شکار کے علاوہ مارخور کی تعداد میں کمی کے اور بھی کئی عوامل ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس دسمبر میں برف باری میں کمی کی وجہ سے مارخور پہاڑوں سے نیچے نہیں آئے تھے۔
یاد رہے کہ پہاڑوں پر زیادہ برف باری کے باعث مارخور خوراک کی تلاش میں پہاڑوں سے نیچے آتے ہیں جس کے بعد محکمۂ جنگلی حیات کے اہل کار ان کی گنتی کر لیتے ہیں۔
عالم زیب ایڈووکیٹ قومی جانور کی تعداد میں کمی کی دوسری بڑی وجہ ان کی ہجرت کو قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مارخور کے تناسب کے لحاظ سے گول نیشنل پارک کا رقبہ کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ افغانستان چلے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر آہنی باڑ کی تنصیب کا کام بھی جاری ہے۔ افغانستان سے پاکستان واپسی پر بعض اوقات انھیں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہاں کے مارخور افغانستان کے پہاڑوں میں ہی رہ جاتے ہیں۔
ان کے مطابق ورلڈ بینک کے بنائے گئے منصوبے کے مطابق گول نیشنل پارک چترال میں مارخوروں کی تعداد 425 ہونی چاہیے جب کہ اس میں 2000 سے زائد مارخور ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جگہ ان کے لیے کم ہے اور مارخور یہاں سے دوسرے مقامات کی طرف جانا شروع ہو چکے ہیں۔
انہوں نے تیسری بڑی وجہ گزشتہ چند برسوں سے وفاق کی جانب سے فنڈز کے عدم اجرا کو قرار دیا۔
ورلڈ بینک نے پاکستان میں ایک دس برس کا منصوبہ شروع کیا تھا جس کا آغاز 2000 میں ہوا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد مارخور کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ اس منصوبے کے خاتمے کے بعد ’فنڈ فار پروٹیکٹڈ ایریا‘ کے نام سے ایک اسکیم کا آغاز ہوا جس کے لیے 20 لاکھ ڈالرز مختص کیے گئے تھے اور یہ رقم بینک میں رکھی گئی تھی۔
SEE ALSO: پاکستان کے قومی جانور مارخور کے تحفظ کا پروگرامبینک میں رکھی گئی رقم کی آمدن سے مارخور کی افزائش کے ساتھ ساتھ اس کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔
عالم زیب ایڈووکیٹ کے مطابق 18-2017 کے بعد سے وفاق نے فنڈز کی فراہمی روک دی ہے۔
وقافی حکومت کی جانب سے فنڈز کی بندش کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کے سوات بینچ میں بھی رٹ پٹیشن دائر کی جا چکی ہے۔
ویلج کنزوریشن کمیٹی توشی کے جنرل سیکرٹری شہزادہ محمد امیر حسنات الدین کہتے ہیں کہ مارخوروں کی تعداد دوبارہ بڑھ سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت گول نیشنل پارک چترال میں تقریباََ ایک ہزار مادہ مارخور موجود ہیں اور ہر برس ایک مادہ دو بچوں کو جنم دیتی ہے۔ جس سے گول نیشنل پارک میں مارخوروں کی آبادی دوبارہ بڑھ سکتی ہے۔