پشاور پولیس نے توہینِ مذہب کے الزام میں ایک مقامی عدالت میں قتل ہونے والے امریکی شہری کے مبینہ قاتل کی معاونت کے الزام میں ایک جونیئر وکیل کو گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس حکام نے کہا ہے کہ ملزم وکیل پر اس نوجوان کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام ہے جس نے 29 جولائی کو پشاور کی ایک عدالت میں طاہر نسیم کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
پولیس حکام کے مطابق جونیئر وکیل طفیل ضیا نے قتل کے ملزم فیصل عرف خالد کی معاونت کی تھی اور اب وہ جسمانی ریمانڈ پر زیرِ تفتیش ہے۔
پولیس نے کہا ہے کہ طفیل ضیا نے دورانِ تفتیش فیصل عرف خالد کو پستول دینے کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔
طفیل ضیا کا تعلق پشاور سے بتایا جا رہا ہے۔ وہ مقتول طاہر نسیم کے خلاف درج توہینِ مذہب کے مقدمے میں وکیل شکیل خان کے ساتھ زیرِ تربیت وکیل کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ طفیل ضیا نے حال ہی میں وکالت کی ڈگری حاصل کی ہے۔
پشاور بار ایسوسی ایشن کے صدر اختر بلند ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ نہ تو طفیل ضیا نے وکالت کا لائسنس حاصل کیا ہے اور نہ ہی وہ پشاور بار ایسوسی ایشن کا ممبر ہے۔
پشاور پولیس کے ایک افسر ساجد امان نے بتایا ہے کہ طاہر نسیم قتل کیس کی تفتیش جاری ہے اور پولیس نے اصل ملزم کی معاونت کرنے کے الزام میں ایک اور شخص کو بھی گرفتار کیا ہے۔ ساجد امان نے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔
خیال رہے کہ پشاور کی ایک عدالت میں قتل ہونے والا طاہر نسیم امریکی شہریت رکھتا تھا۔ طاہر نسیم کے خلاف نوشہرہ کے رہائشی ملک اویس نے اپریل 2018 میں رپورٹ درج کرائی تھی جس پر توہینِ مذہب کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
طاہر نسیم اور ان کے خاندان کے دیگر افراد پشاور کے نواحی علاقے اچینی بالا میں رہائش پذیر تھے۔ گرفتاری کے بعد طاہر نسیم کو پشاور جیل میں رکھا گیا تھا۔
گزشتہ ماہ 29 جولائی کو جب انہیں مقدمے کی سماعت کے لیے پشاور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا تو وہاں موجود ایک نوجوان فیصل عرف خالد نے پستول سے فائرنگ کر کے طاہر نسیم کو ہلاک کر دیا تھا۔
طاہر نسیم کی نعش 15 اگست کو امریکہ روانہ کر دی گئی۔
طاہر نسیم قتل کے ملزم فیصل کے وکیل شبیر گگیانی نے کہا ہے کہ انہوں نے فیصل کے والدین کے مشورے پر اس کی ضمانت پر رہائی کی درخواست واپس لے لی ہے اور عدالت سے جلد مقدمہ نمٹانے کی درخواست کی ہے۔
ان کے بقول طفیل ضیا کی گرفتاری کے بعد مقدمے میں ایک نیا موڑ آیا ہے۔
شبیر گگیانی نے طفیل ضیا کے بارے میں پولیس حکام کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ملزم فیصل عرف خالد نے گرفتاری کے بعد کہیں بھی طفیل ضیا سے پستول وصول کرنے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ بلکہ اس نے اپنے تمام بیانات میں پستول ساتھ لانے کا اعتراف کیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس میں کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ اس میں بھی طفیل ضیا سے پستول لینے کی کوئی فوٹیج نہیں ہے۔
طاہر نسیم کے قتل کے بعد 12 اگست کی شام کو پشاور ہی کے مصروف ترین کاروباری علاقے ڈبگری میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص معراج احمد کو بھی نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
معراج احمد کے قتل میں ابھی تک پولیس نے کوئی گرفتاری نہیں کی ہے جب کہ جماعت احمدیہ کے عہدے داروں نے طاہر نسیم اور معراج احمد کے قتل کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے احمدی برادری کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔