دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کا مرکز رہنے والے خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں بارودی سرنگیں مقامی افراد بالخصوص خواتین اور بچوں کے لیے خطرات کا باعث بنی ہوئی ہیں۔
افغانستان میں سابق سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران نہ صرف سرحد پار افغانستان میں، بلکہ پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقوں میں جدید اسلحے کے ساتھ ساتھ بارودی سرنگوں کی خرید و فروخت شروع ہو گئی تھی۔
افغانستان سے روسی فوج کے انخلا کے بعد متحارب افغان مسلح گروہ اور طالبان تحریک منظر عام پر آئی جو برسرپیکار رہے۔ اور پھر نائں الیون کے سانحے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ کر دہشت گردی کے خلاف ایک بھرپور جنگ شروع کی۔ اس تمام عرصے کے دوران بارودی سرنگوں کے دھماکوں کے ان گنت واقعات میں دونوں ہمسایہ ممالک افغانستان اور پاکستان کے افغان سرحد سے ملحق علاقوں میں ہزاروں افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
افغان جنگ کے دوران زخمیوں کے علاج کے لیے جرمنی اور جاپان سمیت دیگر کئی ممالک اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کے تعاون سے پشاور، کوئٹہ، ڈیرہ اسمٰعیل خان اور دیگر شہروں میں طبی مراکز اور اسپتال قائم کیے گئے تھے۔
افغان جنگ کے خاتمے کے بعد بیشتر ممالک نے ان اسپتالوں اور طبی مراکز کے انتظام حکومتِ پاکستان کے سپرد کر دیا۔ ان طبی اداروں میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پروستھیٹک اینڈ آرتھوٹیک سائنسز (پی آئی پی او ایس) بھی شامل ہے، جہاں بم دھماکوں، سڑک حادثات اور دیگر وجوہات کے باعث معذور ہونے والے افراد کے علاج کے ساتھ ساتھ انہیں مصنوعی اعضا بھی لگائے جاتے ہیں۔
پی آئی پی او ایس کے مطابق اس ادارے نے گزشتہ ایک عشرے کے دوران لگ بھگ ایک لاکھ افراد کو مصنوعی اعضا فراہم کیے ہیں جن میں سے 70 فی صد افراد وہ تھے جو بارودی سرنگوں اور بم دھماکوں کا نشانہ بنے تھے۔
پی آئی پی او ایس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر لیاقت علی ملک کے مطابق زیادہ تر معذور افراد کا تعلق قبائلی اضلاع سے ہے۔ اور ان میں بھی اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پشاور کی ایک خاتون صحافی فرزانہ علی کے مطابق یہ وہ خواتین اور بچے ہیں جنہیں روز مرہ کے کاموں کے سلسلے میں پہاڑوں اور غیر آباد علاقوں میں جانا پڑتا تھا۔
قبائلی علاقوں سے 2009 میں فوجی کارروائی کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی 2015 میں شروع ہوئی تھی۔ اس وقت بھی اپنے گھروں کو لوٹنے والے اکثر افراد بارودی سرنگوں کے دھماکوں کا نشانہ بن گئے تھے۔
پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین نے دیگر ساتھیوں کے تعاون سے 2016 کے اوائل میں بارودی سرنگوں سے متاثرہ زخمیوں اور متاثرین کے علاج اور مدد کے لیے کوشش شروع کی۔
پشتون تحفظ تحریک سے منسلک جنوبی وزیرستان کے ایک رہنما عالم زیب محسود نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جنوبی وزیرستان کے اس علاقے میں، جہاں محسود قبائل آباد ہیں، اب تک 150 سے زیادہ بارودی سرنگوں کے دھماکے ہو چکے ہیں، جن کی زد میں آنے والوں کی تعداد 160 ہے، جن میں سے 25 ہلاک ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ متاثرین میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
فرزانہ علی نے حال ہی میں مختلف قبائلی اضلاع میں بارودی سرنگوں سے متاثر ہونے والے افراد کے متعلق ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ان علاقوں میں زیادہ تر لوگوں کی زندگی کا دار و مدار کھیتی باڑی اور گلہ بانی، جس کے لیے ان آبادیوں سے باہر جانا پڑتا ہے۔ جہاں پہاڑی سلسلوں اور غیر آباد علاقوں میں موجود بارودی سرنگیں اور بم ان کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ مزید کہتی ہیں کہ دہشت گردوں نے فوجی کارروائیوں کے دوران اپنے ٹھکانوں کے اردگرد کے علاقوں میں بارودی سرنگیں یا دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم بچھائے تھے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے خالی ہونے کے بعد اس بارودی مواد کو اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ زمین میں دفن بارودی مواد، دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بموں اور دیگر دھماکہ خیز مواد کا کھوج لگا کر انہیں ناکارہ بنانے کے اقدامات کرے۔
جنوبی وزیرستان میں فرائض سرانجام دینے والے ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب بھی اُنہیں بارودی سرنگوں یا دیگر دھماکہ خیز مواد کے بارے میں اطلاع ملتی ہے تو وہ اسے ناکارہ بنا دیتے ہیں۔
ان کے بقول بارودی سرنگوں کی زد میں آنے والوں کے علاج کے لیے سرکار مالی مدد کرتی ہے۔ جب کہ متاثرین کی ایک بڑی تعداد کو معاوضہ بھی دیا جا چکا ہے۔
جنوبی وزیرستان کے گاؤں کوٹکی میں بارودی سرنگ کے ایک دھماکے میں اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہونے والے تاج محمد کہتے ہیں کہ اُنہیں حکومت کی جانب سے کوئی مالی مدد یا معاوضہ نہیں ملا۔
تاج محمد 27 مارچ 2016 کو بارودی سرنگ کے دھماکے کی زد میں اس وقت آئے تھے جب وہ اپنی بکریاں چرا رہے تھے۔
تاج محمد کہتے ہیں کہ معذوری کے باعث ان کے لیے زندگی عذاب سے کم نہیں ہے۔
اسی طرح کے خیالات ایک نوجوان خاتون حمیدہ کے بھی ہیں۔ جو گھر کا چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرنے گئی تھیں۔ اس دوران بارودی سرنگ کا دھماکہ ہوا، جس سے وہ اپنی دونوں ٹانگوں سے معذور ہو گئیں۔