اسلام آباد —
پاکستانی فوج نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں 33 ہزار سے زائد دیسی ساختہ بموں کے دھماکے ہوئے، جن میں لگ بھگ 11 ہزار افراد ہلاک اور 21 ہزار زخمی ہوئے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ دیسی ساخت کے بم حملوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے لفٹیننٹ جنرل راشد محمود کی سربراہی میں پیر کو راولپنڈی میں فوجی ہیڈکوارٹر میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں وزارت خارجہ سمیت متعلقہ اداروں نے عہدیداروں نے شرکت کی۔
سرکاری بیان کے مطابق اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو نہ صرف گھریلو ساخت کے ان بم دھماکوں سے متاثر ہونے والوں کے درد کا مداوا کرنا ہے بلکہ عام لوگوں میں اس بارے میں آگاہی کی ترویج بھی ایک بڑا چیلنج ہے تاکہ لوگ غیر ارادی طور پر اس کا شکار نہ ہوں۔
حالیہ برسوں میں دیسی ساختہ بم یا آئی ای ڈی سے ملک کے مختلف حصوں خاص طور پر افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں اور صوبہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات کے علاوہ عوامی مقامات پر مہلک حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں سرکاری عہدیدار بشمول وزیرداخلہ رحمٰن ملک بار ہا یہ کہہ چکے ہیں کہ دیسی ساختہ بم دہشت گردوں کا موثر ہتھیار بم چکا ہے۔
بیان کے مطابق پاکستانی فوج کی طرف سے دیسی ساختہ بموں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تین خصوصی یونٹس پر مشتمل ایک نئی فورس تشکیل دی جا رہی ہے۔
دیسی ساخت کے بم حملوں کے نقصانات پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان انسٹی ٹویٹ فار پیس اسٹیڈیز کے سربراہ عامر رانا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فورس کی تشکیل ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
’’آئی ای ڈی کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے، گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں جتنی دہشت گردی بڑھی ہے اس یا تو اس میں ٹارگٹ کلنگ ہوئی یا پھر آئی ای ڈی سے نشانہ بنایا گیا… بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی پاکستان پر دباؤ تھا کہ اس حوالے سے عملی اقدامات کرے۔‘‘
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کا شمار کیماوئی کھاد تیار کرنے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔ دہشت گرد دیسی ساختہ بموں کی تیاری کے لیے درکار ایمونیم نائٹریٹ ہی اس مہلک ہتھیار کی تیاری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
آئی ای ڈی افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کے خلاف عسکریت پسندوں کا ایک بڑا اور موثر ہتھیار بن چکا ہے اور حالیہ برسوں میں امریکی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ ایمونیم نائٹریٹ کی تیاری، ترسیل، ذخیرہ اندوزی اور اس کی تقسیم کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مربوط نظام وضع کرنے کی ضرور ت ہے تاکہ دیسی ساخت کے بموں کی تیاری کو روکا جا سکے۔
حکومت پاکستان نے حال ہی میں ایمونیم نائٹریٹ کی ترسیل، اسے ذخیرہ کرنے اور اس کی فروخت سے متعلق سخت قوانین کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔
لیکن پیر کو ہونے والے اجلاس میں کہا گیا کہ اس بارے میں ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
فوجی کمانڈر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں شرکا کو بتایا گیا کہ دیسی ساختہ بموں سے متاثر ہونے والے متعدد ملکوں نے اس لعنت پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کی ہے لیکن پاکستان میں اس ضمن میں قانونی سطح پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اجلاس میں خطے اور بیرونی ممالک سے کیلشیم امونیئم نائٹریٹ کھاد اور دھماکا خیز مواد کی نقل وحمل پرموثر انداز میں قابو پانے کی حکمت عملی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی تاجر حضرات الیکٹرک سرکٹس، زیادہ فاصلے تک استعمال ہونے والے ریموٹ کنٹرول اور کیلشیم امونیئم نائٹریٹ کی فروخت سے نادانستہ طور پر دہشت گردوں کی مدد کرسکتے ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ دیسی ساخت کے بم حملوں کے خطرات سے نمٹنے کے لیے لفٹیننٹ جنرل راشد محمود کی سربراہی میں پیر کو راولپنڈی میں فوجی ہیڈکوارٹر میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں وزارت خارجہ سمیت متعلقہ اداروں نے عہدیداروں نے شرکت کی۔
سرکاری بیان کے مطابق اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو نہ صرف گھریلو ساخت کے ان بم دھماکوں سے متاثر ہونے والوں کے درد کا مداوا کرنا ہے بلکہ عام لوگوں میں اس بارے میں آگاہی کی ترویج بھی ایک بڑا چیلنج ہے تاکہ لوگ غیر ارادی طور پر اس کا شکار نہ ہوں۔
حالیہ برسوں میں دیسی ساختہ بم یا آئی ای ڈی سے ملک کے مختلف حصوں خاص طور پر افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقوں اور صوبہ بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات کے علاوہ عوامی مقامات پر مہلک حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں سرکاری عہدیدار بشمول وزیرداخلہ رحمٰن ملک بار ہا یہ کہہ چکے ہیں کہ دیسی ساختہ بم دہشت گردوں کا موثر ہتھیار بم چکا ہے۔
بیان کے مطابق پاکستانی فوج کی طرف سے دیسی ساختہ بموں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تین خصوصی یونٹس پر مشتمل ایک نئی فورس تشکیل دی جا رہی ہے۔
دیسی ساخت کے بم حملوں کے نقصانات پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم پاکستان انسٹی ٹویٹ فار پیس اسٹیڈیز کے سربراہ عامر رانا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فورس کی تشکیل ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
’’آئی ای ڈی کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے، گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں جتنی دہشت گردی بڑھی ہے اس یا تو اس میں ٹارگٹ کلنگ ہوئی یا پھر آئی ای ڈی سے نشانہ بنایا گیا… بین الاقوامی برادری کی طرف سے بھی پاکستان پر دباؤ تھا کہ اس حوالے سے عملی اقدامات کرے۔‘‘
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کا شمار کیماوئی کھاد تیار کرنے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔ دہشت گرد دیسی ساختہ بموں کی تیاری کے لیے درکار ایمونیم نائٹریٹ ہی اس مہلک ہتھیار کی تیاری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
آئی ای ڈی افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کے خلاف عسکریت پسندوں کا ایک بڑا اور موثر ہتھیار بن چکا ہے اور حالیہ برسوں میں امریکی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ ایمونیم نائٹریٹ کی تیاری، ترسیل، ذخیرہ اندوزی اور اس کی تقسیم کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مربوط نظام وضع کرنے کی ضرور ت ہے تاکہ دیسی ساخت کے بموں کی تیاری کو روکا جا سکے۔
حکومت پاکستان نے حال ہی میں ایمونیم نائٹریٹ کی ترسیل، اسے ذخیرہ کرنے اور اس کی فروخت سے متعلق سخت قوانین کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔
لیکن پیر کو ہونے والے اجلاس میں کہا گیا کہ اس بارے میں ابھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
فوجی کمانڈر کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں شرکا کو بتایا گیا کہ دیسی ساختہ بموں سے متاثر ہونے والے متعدد ملکوں نے اس لعنت پر قابو پانے کے لیے قانون سازی کی ہے لیکن پاکستان میں اس ضمن میں قانونی سطح پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اجلاس میں خطے اور بیرونی ممالک سے کیلشیم امونیئم نائٹریٹ کھاد اور دھماکا خیز مواد کی نقل وحمل پرموثر انداز میں قابو پانے کی حکمت عملی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی تاجر حضرات الیکٹرک سرکٹس، زیادہ فاصلے تک استعمال ہونے والے ریموٹ کنٹرول اور کیلشیم امونیئم نائٹریٹ کی فروخت سے نادانستہ طور پر دہشت گردوں کی مدد کرسکتے ہیں۔