لاہور کے الحمرا ہال میں ہونے والے آٹھویں لٹریری فیسٹیول میں تیسرے روز25 سیشنز منعقد ہوئے۔ جس میں دنیا بھر سے صحافیوں، مصنفین، استادوں کے علاوہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے لکھاریوں، صحافیوں اور آرٹسٹوں نے شرکت کی۔
تین روزہ لٹریری فیسٹیول کے ایک سیشن میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے افغان امن عمل پر ایرانی نژاد امریکی استاد اور مصنف ولی نصر ، سابق پاکستانی سفارت کار ریاض محمد خان نے شرکت کی۔ جب کہ میزبانی کے فرائض صحافی اور مصنف احمد رشید نے ادا کیے۔
صحافی اور مصنف احمد رشید کا کہنا ہے کہ پاکستان کو امریکہ پر زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے اور پاکستان، ایران اور روس ہمیشہ یہاں ہی رہیں گے اور یہ ممالک ہی افغانستان کے مستقبل میں پڑوسی ہوں گے۔
سیشن کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ولی نصر کا کہنا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ملٹری معاہدہ تو ممکن ہے۔ لیکن جہاں تک پولیٹیکل ڈیل کا تعلق ہے تو خطے میں ایک اور اسٹیک ہولڈر ایران کے بغیر یہ معاہدہ ممکن نہیں۔ ان کے بقول زلمے خلیل زاد اس حقیقت سے آشنا ہیں اور اسی وجہ سے وہ ایران کو بھی اس معاہدے کا حصہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ولی نصر کا مزید کہنا تھا کہ ایران یہ بخوبی جانتا ہے کہ اگر امریکہ واقع ہی افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے تو امریکہ کو افغانستان سے بات کرنا پڑے گی اور امریکہ کو ایران سے ان معاملات پر بھی بات کرنا پڑے گی۔ جن پر ایران، امریکہ سے بات کرنا چاہتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ ایران کے بغیر امریکہ اور طالبان سیاسی معاہدہ کرسکتے ہیں۔
سابق سفارت کار ریاض محمد خان کا طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے افغان امن عمل معاہدے سے متعلق کہنا تھا کہ کسی بھی مذاکرات میں دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک مذاکرات کا فارمیٹ اور دوسرا مذاکرات کی روح۔
ریاض محمد خان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ طالبان مذاکرات میں ماسکو ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماسکو ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں اس معاہدے کے تمام اسٹیک ہولڈرز اکھٹے ہوسکتے ہیں۔
ولی نصر سے متفق ہوتے ہوئے ریاض محمد خان کا کہنا تھا کہ ایران خطے میں ایک انتہائی اہم ملک ہے۔ جس کے افغانستان میں کچھ دھڑوں کو پشت پناہی حاصل ہے۔ جیسے ناردرن الائنس اور ہزارہ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران افغانستان میں ایک مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔
سیشن کی میزبانی کرنے والے مصنف احمد رشید کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں امریکہ، ایران کے ساتھ بات چیت نہیں کر سکتا۔ لیکن امریکہ پاکستان کے ذریعے ایران کے ساتھ بات چیت کرسکتا ہے۔
احمد رشید کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو نہ صرف ایران سے بلکہ روس سے بھی بات چیت کرنی چاہیے اور پاکستان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکہ افغانستان سے نکل رہا ہے اور پاکستان، ایران اور روس ہمیشہ یہاں ہی رہیں گے اور یہ ممالک ہی افغانستان کے مستقبل میں پڑوسی ہوں گے۔
ریاض محمد خان کا کہنا تھا کہ اگر دیانت داری سے دیکھا جائے تو اقوام متحدہ بہت کمزور ہے۔ لیکن اقوام متحدہ سب کے لیے قابل قبول ہو گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں افغان امن عمل میں دیگر اسٹیک ہولڈرز کو نہیں بھولنا چاہیے جیسے اقوام متحدہ۔ جس کی فوجیں امریکہ کے انخلا کے بعد بھی افغانستان میں موجود رہیں گی۔ پاکستان، ایران اور کسی حد تک روس۔ ان سب کا افغانستان کے امن میں کردار ہے۔ مگر ان سب کو افغانیوں کو اس مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی اجازت دینے چاہیے۔
ولی نصر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں سیاسی مسائل کے حل کے لیے امریکہ کو اقوام متحدہ کی ضرورت ہے اور امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدہ اقوام متحدہ کے ذریعے ہونا چاہیے۔
ولی نصر کا مزید کہنا تھا ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جلال الدین حقانی امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' میں امریکی صدر ٹرمپ کے لیے ایک محبت نامہ لکھے گا اور کہے گا کہ ہم آپ کے ساتھ کام کریں گے اور آپ کے سارے تحفظات کو دور کریں گے۔
اجتماعی ذہانت کا اجتماع
ڈرامہ نویس اصغر ندیم سعید کی میزبانی میں ہونے والے سیشن میں استاد اور تاریخ دان عارفہ سیدہ زہرہ اور صحافی و تجزیہ کار وجاہت مسعود نے گفتگو کی۔
اس موقع پر عارفہ سیدہ زہرہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جو تنوع ہے وہ دنیا کے عام ممالک میں نہیں ہوتی۔ وہ جغرافیہ کی ہو، تارخ کی ہو، زبان کی ہو، خاندان کی ہو، نسل کی ہو یا عقیدے کی ہو۔ لیکن مسئلہ کیا ہے کہ اگر یہ سب باتیں ہمیں ملا سکیں تو پھر سیاست کیسے چمکے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نادان شخص بھی بہت عقلمند ہوتا ہے۔ جب اکیلا نہیں ہوتا اور عقلمند شخص بھی بہت نادان ہوتا ہے۔ جب وہ کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔
عارفہ سیدہ زہرہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اجتماع ہوتا ہے تو فتوی پر۔ اجتماع ہوتا ہے تو سیاست کے کسی دھانے پر اور زوال ہوتا ہے قوم کے اس ورثے کا، قوم کی امیدوں کا، قوم کے یقین کا کہ وہ ہمیں کہیں کھڑا ہی نہیں ہونے دیتے۔
سیشن میں عارفہ سیدہ زہرہ کا مزید کہنا تھا کہ اب عورتیں صرف ایک بھینس اور تین بکریاں پالیں گی اور ہماری اجتماعیت میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وارث شاہ میاں لوکاں کملیاں نوں قصہ جوڑ ہشیار سنایا ای
لاہور لٹریری فیسٹیول میں پنجابی صوفی شاعر وارث شاہ کی تصنیف 'ہیر ' کے چند منتخب کردہ بندوں پر مبنی پنجابی ڈرامہ بھی پیش کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5