خیبر پختونخوا میں خواتین پر گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے مجوزہ قانون ایک بار پھر تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔ حکومت کی تجویز پر اس بل کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
صوبائی وزیرِ خوراک قلندر خان لودھی نے پیر کو خیبر پختونخوا میں خواتین پر گھریلو تشدد روکنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے سے متعلق بل ایوان میں پیش کیا۔ لیکن اسپیکر نے وزیر قانون سلطان محمد خان کی تجویز پر بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے حوالے کر دیا۔
ایوان میں بل پیش کیے جانے کے فوراً بعد جماعتِ اسلامی کے رہنما عنایت اللہ خان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ملک منور خان نے کہا کہ بل کے تحت مجوزہ سزاؤں میں سے کئی غیر اسلامی ہیں۔ لہٰذا یہ بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا جائے۔ لیکن رائے شماری کے دوران دونوں اراکین اسمبلی کی اس تجویز کو مسترد کر دیا گیا۔
خیبر پختونخوا میں خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف مؤثر قانون بنانے کی تجاویز اور مطالبات گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہیں۔ سال 2011 میں پہلی بار اس مسئلے کے حل سے متعلق بل صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا جس پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا تھا۔ بعد ازاں 2014 اور 2018 میں پیش کیے جانے والے بلوں کا بھی کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا تھا۔
خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن عمران ٹکر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکمران جماعت سمیت حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے رہنما بھی اس قانون کی منظوری کے لیے تیار نہیں۔ وہ اس قانون کی منظوری میں تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں۔ حالانکہ ملک کے دیگر تین صوبوں میں یہ قانون پہلے ہی سے منظور کیا جا چکا ہے۔
خیال رہے کہ خیبر پختونخوا میں خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ غیرت کے نام پر خواتین کے قتل اور بچوں سے جنسی زیادتی کے بعد قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
صوبائی وزیرِ اطلاعات شوکت یوسفزئی نے مذکورہ بل قائمہ کمیٹی کو بھجوائے جانے سے متعلق بتایا ہے کہ اس اقدام کا مقصد بل میں موجود سقم دور کرنا اور اس قانون کو باہمی مشاورت سے مؤثر بنانا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی کوشش ہے کہ خواتین پر ہونے والے تشدد کے واقعات کی حوصلہ شکنی کے لیے جلد از جلد اس قانون کو صوبائی اسمبلی سے منظور کرا کر نافذ کیا جائے۔
علاوہ ازیں صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے دوران جمعیت علمائے اسلام (ف) کی خاتون رکن نعیمہ کشور نے خواتین کا وراثت میں حصہ یقینی بنانے کے لیے ایک ترمیم پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ اس ترمیم کے ذریعے ان متاثرہ خواتین کو عدالت سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گیا ہے جنہیں حقِ وراثت سے محروم کیا جاتا ہے۔