پاکستان کے صوبے خیبر پختون خواہ میں ملک کے پہلے بلدیاتی یا مقامی انتخابات ہوئے ہیں جنہیں فیز ون کہا جارہا ہے کیونکہ یہ انتخابات دو مرحلوں میں ہو رہے ہیں جن میں سے ایک مرحلہ ابھی مکمل ہوا ہے۔ اب تک کے نتائج کے مطابق حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے مقابلے میں اپوزیشن کی جماعت جمعیت العلماء اسلام (ف) کو سبقت حاصل ہے۔
یہ انتخابی نتائج ملک میں مستقبل کے کن انتخابی رجحانات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس بارے میں پاکستان کے سیاسی امور کے تجزیہ کاروں کی آراء مختلف ہیں۔
احمد بلال محبوب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسٹو ڈولپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی یعنی پلڈاٹ کے سربراہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا پہلے مرحلے میں 64 تحصیل یا سٹی کونسلز کے انتخابات ہوئے ہیں اور اب تک کے نتائج کے مطابق جے یو آئی کو پی ٹی آئی پر نشستوں کے لحاظ سبقت حاصل ہے۔ جب کہ ابھی مزید نشستوں کے نتائج آنا باقی ہیں۔ لیکن ووٹوں کے حصول کے معاملے میں اب تک پی ٹی آئی کو جے یو آئی پر تھوڑی سی سبقت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ یقیناً پی ٹی آئی کے لئے ایک دھچکہ ہے۔ اس کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔ اس کے امیدوار کمزور اور اس کے وزراء اور اراکین پارلمنٹ اپنے اپنے علاقوں میں غیر موثر ثابت ہوئے ہیں۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ حکمران جماعت نے اپنی شکست کو تسلیم کیا ہے۔ اور اسے کسی دھاندلی کا نتیجہ قرار نہیں دیا ہے۔ جو ایک اچھی روایت ہے۔
SEE ALSO: خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات: جے یو آئی (ف) نے اتنی نشستیں کیسے حاصل کیں؟خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے کے پی میں بلدیاتی انتخاب کے پہلے مرحلے کے حوالے سے کہا ہے کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کے غلط امیدواروں کا چناؤ شکست کا سبب بنا۔ اور احمد بلال محبوب کے مطابق وزیر اعظم کے اس تبصرے کے علاوہ دوسرے وزراء اور پارٹی رہنماؤں نے اس شکست کی مختلف تاویلات پیش کی ہیں۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ بڑی وجوہات میں مہنگائی، انتظامی امور میں کمزوری اور پارٹی کے دھڑوں میں اختلافات شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ اسی صوبے کے بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں حکمران جماعت کیا اپنی غلطیوں کا ازالہ کر سکے گی؟ یہ پارٹی قیادت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخواہ پہلا صوبہ ہے جہاں دو مراحل میں یہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب ابھی ان انتخابات کی کوئی تاریخ بھی مقرر نہیں کی گئی ہے۔ جب کہ بلوچستان میں ان انتخابات کے معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے۔ وہاں سے فیصلے کے بعد ہی یہ انتخابات ہو سکیں گے۔ اسی طرح ابھی اسلام آباد میں بھی انتخابات کی کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوئی ہے۔
ادھر صوبہ خیبر پختونخواہ کے ایک وزیر اور پی ئی آئی کے رہنما شوکت یوسفزئی نے ان انتخابات کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تو آدھے صوبے میں انتخابات ہوئے ہیں۔ آدھے صوبے کے انتخابات ہونے اور ان کے نتائج آنے کے بعد ہی صحیح صورت حال سامنے آئے گی اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے قبل سیاسی مضمرات کے بارے میں کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنا مناسب نہ ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ انہیں مطلع کیا گیا ہے کہ اس پہلے مرحلے میں کوئی سولہ ہزار ووٹ مسترد بھی ہوئے ہیں۔ اور یہ دیکھنا ہو گا کہ اگر یہ خبر درست ہے تو کن وجوہات کی بناء پر یہ ووٹ مسترد ہوئے ہیں۔
انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ اس انتخاب میں اور امیدواروں کے چناؤ میں غلطیاں ہوئی ہیں۔ خاص طور سے آزاد امیدواروں کے سبب پارٹی کے اپنے ووٹ تقسیم بھی ہوئے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ بعض مخالف سیاسی جماعتوں کے اس الزام میں کتنی حقیقت ہے کہ اسٹبلشمنٹ کے اشارے پر یہ سارا کام ہوا ہے تاکہ یہ اور اس جیسی دوسری مذہبی جماعتیں افغانستان میں اس کی پالیسیوں کا تحفظ کرنے میں مدد دے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے۔ فوج اور حکومت انتخابی معاملات سے الگ تھلگ رہے ہیں۔
سلمان عابد ایک فری لانس صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کے پی کے بلدیاتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں حکمران جماعت کی ناکامی کی بڑی وجہ تو ملک کی خراب معیشت، مہنگائی اور گورننس کی کمزوریاں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑی وجہ پی ٹی آئی کی تنظیمی معاملات میں بڑی کمزوریاں بھی ہیں جو پہلی بار اس قدر کھل کر سامنے آئی ہیں۔ وہاں کے وزراء اور ارکان اسمبلی نے اپنے عزیزوں کو نوازا اور ٹکٹ دیے جس کے سبب پارٹی ارکان آزاد امیدواروں کی حیثیت سے میدان میں اترے اور پی ٹی آئی بمقابلہ پی ٹی آئی کی صورت حال بنی۔ اور خود وزیر اعظم عمران خان نےبھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال تھا جے یو آئی اپنی سیاسی طاقت کھو چکی ہے اور اس طرح اس کا ابھر کر سامنے آنا بہت سے سوالوں کو جنم دے رہا ہے اور بعض واقفان حال تو سمجھتے ہیں کہ شاید اسٹبلشمنٹ کے ساتھ پس پردہ ان کے کچھ معاملات طے ہوئیے ہیں۔ اور بقول ان کے مولانا فضل الرحمان اپنے لئے جس پولیٹیکل سپیس یا سیاسی گنجائش کے لئے کوشاں تھے یہ اسی سلسلے کی پیش رفت ہے۔ جب کہ بعض دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے سبب ایک ایسی مذہبی جماعت کو سامنے لایا جا رہا ہے جو طالبان کے لئے پسندیدہ ہے یعنی افغانستان کا جو ایک فیکٹر ہے اس نے بھی علاقائی سیاست کے سیاق و سباق میں مولانا فضل الرحمن کے لئے گنجائش نکالی ہے۔ کیونکہ اگر معاملہ صرف حکومت کی عدم کارکرد گی کا ہی تھا تو اسکا فائدہ جے یو آئی ہی کو کیوں ملا۔ اے این پی سمیت اپوزیشن کی کسی اور پارٹی کو کیوں نہیں ملا۔ اور اسی لئے اس بارے میں تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ مذہبی جماعتوں کا اوپر آنا پاکستان کے لئے اور اس کی ریاست کے لئے مسئلہ پیدا کرے گا۔ اسی طرح پنجاب میں تحریک لبیک پاکستان کا ووٹ بینک بہت بڑا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں خیبر پختونخواہ میں جے یو آئی اور پنجاب میں تحریک لبیک پاکستان کا کردار ابھرے گا اور مسائل پیدا ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تحریک لبیک پاکستان کے بارے میں تو واضح ہے کہ اسے پولیٹیکل سپیس دی گئی۔ اور حکومت جس طرح اس کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی تھی، اسے نہیں کرنے دیا گیا۔ لیکن مولانا فضل الرحمان کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کے پی میں بلدیاتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کے نتائج سے پہلے کچھ کہنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی دوسرے انتخابی مرحلے میں اس سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی تو اس کے بارے میں یہ تاثر قائم کو گا کہ 2023 کے الیکشن کے حوالے سے کہ اس کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ حالانک وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں مقامی حکومت کے انتخابات اور قومی انتخابات کے ڈائنامکس ہہت مختلف ہوتے ہیں۔ اور انہوں مے کہا کہ اس سلسلے میں ایک اور بہت قابل غور بات یہ بھی ہے کہ ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بہت کم رہا۔ یہ بھی پی ئی آئی کی ایک بڑی ناکامی ہے۔
سلمان عابد کا کہنا تھا ان کی اطلاعات کے مطابق اس بارے میں حقائق کے حوالے سے ایک رہورٹ وزیر اعظم کو پیش کر دی گئی ہے۔ اور انہوں نے کے پی کے وزیر اعلیٰ کو طلب کر لیا ہے اور کچھ وزیروں اور کچھ ارکان اسمبلی کے خلاف جلد ہی کارروائی متوقع ہے۔