پاکستان کی جانب سے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان جاری کشیدگی پر وائس آف امریکہ نے پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ خورشید محمود قصوری سے بات چیت کی ہے۔ ان سے گفتگو سوال جواب کی صورت میں پیش ہے:
سوال: پاکستان اور بھارت میں کشیدگی عروج پر ہے اور فضائی جھڑپوں کے بعد جنگ کے بادل منڈلارہے تھے۔ پاکستان سے بھارتی پائلٹ کی رہائی کے بعد کیا جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے؟
خورشید محمود قصوری: دیکھیں، مودی صاحب کا بنیادی مقصد علاقے کا امن و استحکام نہیں، انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔ انھوں نے حملہ کرکے اپنی رائے عامہ کو مطمئن کرلیا ہے۔ پاکستان نے مہذب طریقے سے اس معاملے کو سنبھالا ہے۔ پاکستان نے جنگ کی باتیں نہیں کیں۔ حملہ انھوں نے کیا۔ یہاں جواب میں ان کے جہاز گرادیے گئے۔ ان کے پائلٹ کو گرفتار کرکے فیصلہ کیا کہ رہا کردیں گے۔ دونوں فریق اگر چاہیں تو اپنی اپنی فتح کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ شاید معمول کے حالات میں ایسا ہی ہوتا۔ لیکن آج کل حالات معمول پر نہیں ہیں۔ مودی صاحب کسی بھی صورت الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے حال میں کہا ہے کہ یہ پائلٹ پروجیکٹ تھا تو دیکھیں وہ اور کیا کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا ڈرامائی انداز ہو۔ لیکن یہ واضح ہے کہ ہندوستان جو کچھ بھی کرے گا، پاکستان اس کا جواب دے گا۔ اگر وہ کریں گے تو پاکستان اس پوزیشن میں ہوگا کہ اس سے تھوڑا سا زیادہ کرے۔ پھر یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا؟ عالمی برادری کو بھی سوچنا چاہیے کیونکہ دونوں جوہری طاقتیں ہیں۔
اچھی بات ہے کہ صدر ٹرمپ نے بھی اس بارے میں بات کی ہے اور روس کی طرف سے بھی ثالثی کی پیشکش کی گئی ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں کیوبا کے میزائل بحران میں روس اور امریکا کے درمیان ایسا ہی ماحول بن گیا تھا۔ لیکن, ان کی بات چیت ختم نہیں ہوئی تھی۔ ان کی تیسرے فریق اور سفیروں کے ذریعے بات چیت ہوتی رہی تھی۔ پوری دنیا کا امن خطرے میں پڑگیا تھا۔ چنانچہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں امریکا کو جب روس کا مقابلہ کرنا پڑا تو اس نے سرکاری طور پر نہیں کیا۔ اس نے غیر ریاستی عناصر کو متعارف کرایا جو آج ہمارے گلے پڑے ہوئے ہیں۔ امریکا نے ایسا اس لیے کیا کہ روس کے خلاف اس کے براہ راست ملوث ہونے کی بات نہ ہو۔ کیوبا میزائل بحران سے یہ سبق ملا تھا کہ دو جوہری ملکوں کو آمنے سامنے نہیں آنا چاہیے۔ مودی صاحب کو یہ بات سمجھنی چاہیے اور جوہری طاقتوں سے اسی ذمے داری کی توقع کی جاتی ہے۔ لیکن اگر وہ ذمے داری کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو نتیجہ بھگتیں گے۔
میں نے انٹرنیشنل میڈیا پر دیکھا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے اقدام کو سراہا جا رہا ہے اور ان کا قد بڑھا ہے۔ اگر مودی صاحب صرف الیکشن کو مدنظر رکھ کر فیصلے کریں گے تو سارے علاقے کی سیکورٹی کو خطرے میں ڈال دیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ جو کچھ بھی کریں گے، پاکستان اس کا جواب دے گا۔
سوال: بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کا فیصلہ عمران خان نے خود کیا ہے یا ایسا امریکا کے کہنے پر کیا گیا؟
خورشید محمود قصوری: وزیر اعظم اگر خود یہ فیصلہ کرتے تو یہ سمجھ سکتے تھے کہ ایک شخص کو چھوڑنے سے پاک فضائیہ کمزور نہیں ہوجائے گی۔ پاکستان ماشا اللہ اپنا دفاع کرسکتا ہے۔ اگر انھوں نے دوبارہ حملہ کیا تو پھر طیارے گرا لیے جائیں گے۔ پائلٹ کی رہائی پاک فضائیہ پر اعتماد کا اظہار ہے۔ اس کے علاوہ کھلے دل کا ہونے کی مظہر بھی ہے۔
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کشیدگی میں کمی کے لیے امریکا، سعودی عرب، چین اور دوسرے ملک بھی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ دونوں ملکوں سے تحمل کا تقاضا کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے سوچا ہو کہ پائلٹ کی رہائی سے ان کے لیے مداخلت کرنے کا ماحول بہتر ہوجائے گا۔ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ آپ جلد اچھی خبر سنیں گے اور معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ اگر انھوں نے یہ کہا تو انھیں وحی تو نہیں آئی ہوگی۔ انھوں نے کسی سے بات کی ہوگی، کچھ مشورے دیے ہوں گے۔ میرے پاس اندر کی معلومات تو نہیں لیکن یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ اس میں امریکا کا مشورہ شامل ہوگا۔
جب میں وزیر خارجہ تھا تو امریکا پیچھے رہ کر کردار ادا کرتا تھا۔ میرے سامنے ایک بار نہیں، تین بار ایسا ہوا۔ ایک بار انیس سو ننانوے میں کارگل کے موقع پر۔ پھر 2002 میں، جب میں وزیر خارجہ تھا۔ بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد سرحدوں پر ایک ملین فوجی آمنے سامنے آگئے تھے۔ اس وقت امریکا نے مداخلت کی تھی۔ کونڈولیزا رائس نے اپنی کتاب میں یہ بات لکھی بھی ہے۔ آج ایک بھارتی تجزیہ کار نے ان کی وہ بات یاد دلائی ہے۔اس وقت بھارتی قومی سلامتی کے مشیر برجیش مشرا نے امریکی ہم منصب کونڈولیزا رائس کو فون کیا اور کہا کہ امریکا کو اس وقت کردار ادا کرنا چاہیے۔ تیسری بار جب ممبئی کا واقعہ ہوا تو اس وقت کونڈولیزا رائس وزیر خارجہ بن چکی تھی۔ وہ بھارت گئیں اور امریکا کے دو سینیٹرز اور رچرڈ ہالبروک پاکستان آئے۔ یہ امریکا کا ٹریک ریکارڈ ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ پلواما کا حملہ ہوا تو ابتدائی طور پر امریکا کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف لگ رہا تھا۔ لیکن اب ایسا نہیں۔ افغانستان کے معاملے میں پاکستان اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور کر رہا ہے، امریکا اس کی تحسین کر رہا ہے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات پہلے کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔ انھوں نے ہنوئی میں پاک بھارت کشیدگی پر بات کی اور یہ امکان ہے کہ پائلٹ کی رہائی کے اسباب میں سے ایک وجہ یہ بھی ہو۔
سوال: او آئی سی کے اجلاس میں پاکستان شریک نہیں اور بھارتی وزیر خارجہ نے خطاب کیا ہے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں؟ بھارتی سرکار اسے اپنی سفارتی کامیابی قرار دے رہی ہے۔
خورشید محمود قصوری: جی ہاں، معمول کی صورتحال میں بھی یہ بہت عجیب بات ہوتی۔ ہر تنظیم کے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ پاکستان او آئی سی کا بانی رکن ہے۔ بھارت مبصر ملک تک نہیں۔ عرب امارات کے پاس سشما سوراج کو مدعو کرنے کے لیے اگر کوئی ٹھوس وجہ تھی تو اسے پاکستان کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ وہ انھوں نے نہیں کیا۔ اگر انھوں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی سے پہلے بھارت کو دعوت دے دی تھی تو ان کے پاس ایک راستہ یہ تھا کہ وہ اجلاس ملتوی کردیتے۔ اس سے پاکستان اور عرب امارات کو بات چیت کرنے کا موقع مل جاتا۔
ایک طرف پاکستان برا محسوس کر رہا تھا کہ ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوئی ہے، ادھر مودی صاحب کہہ رہے ہیں کہ یہ لیبارٹری کا پہلا ٹیسٹ ہے، آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے! ان حالات میں پاکستان کے وزیر خارجہ سامعین میں بیٹھ کر سسشما سوراج کی تقریر کیسے سنتے؟ بھارت تو رکن ہی نہیں۔ سشما سوراج نے افتتاحی اجلاس کے بعد چلے جانا تھا۔ پاکستان ان کا جواب بھی نہیں دے سکتا تھا۔ ممکن ہے کہ دفتر خارجہ کوئی وفد بھیجے تاکہ وہ اپنی شکایت درج کر اسکے۔ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد ہمارے وزیر خارجہ کے لیے بھارت کی موجودگی میں او آئی سی اجلاس میں شرکت مناسب نہیں تھی۔