پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والے بچوں کے لواحقین نے مجرم سہیل شہزاد کو سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
سہیل شہزاد کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے منگل کو تین بار سزائے موت اور ایک مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
یہ فیصلہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج محمد اقبال نے کوٹ لکھپت جیل میں سنایا۔
سزا کے بعد مقتول فیضان کے والد قاری محمد رمضان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اب تک کی عدالتی کارروائی سے وہ مطمئن ہیں مگر انہیں چین اسی وقت آئے گا جب مجرم کو سرعام پھانسی دی جائے گی۔
خیال رہے کہ رواں سال ستمبر میں قصور کے علاقے چونیاں میں لاپتا ہونے والے 4 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں جنہیں مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
پولیس نے ڈی این اے میچ ہونے پر سہیل شہزاد نامی ملزم کو گرفتار کیا تھا جس کے خلاف قتل، زیادتی اور اغوا کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ان بچوں میں آٹھ سال کا فیضان بھی شامل تھا۔
فیضان کے والد کا کہنا تھا کہ حکومتیں ہمیشہ ہی یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ایسے مجرموں کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔ جب تک ایسے مجرموں کو سرعام پھانسی دے کر عبرت کا نشان نہیں بنایا جائے گا ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔
قاری رمضان کہتے ہیں کہ بطور والدین اور بطور معاشرہ سب کا فرض بنتا ہے کہ بچوں میں آگاہی پیدا کریں۔ انہیں بتائیں کہ گھر سے باہر کسی بھی اجنبی شخص سے کوئی چیز لے کر نہ کھائیں۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے مطابق مقدمہ میں لگنے والی تین دفعات دہشت گردی، قتل اور اغوا پر تین بار سزائے موت اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل کے صوبائی کوارڈینیٹر انصرسجاد بھٹی سمجھتے ہیں کہ ان واقعات میں اضافے کی وجہ بچوں کو نظرانداز کیا جانا ہے۔ ان کے بقول بہت سے والدین اپنے بچوں کو وقت ہی نہیں دیتے۔
SEE ALSO: قصور ویڈیو اسکینڈل: 'جو کچھ ہوا اُسے بھولنا چاہتے ہیں لیکن لوگ بھولنے نہیں دیتے'
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اِس طرح کے مجرم جب تک انصاف کے کٹہرے میں نہیں آئیں گے تب تک ایسے واقعات کی شرح کم نہیں ہو گی۔ جہاں معاشرے میں اِس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے وہیں سزا اور جزا کا نظام بھی مضبوط ہونا چاہیے۔
ساحل تنظیم کے اعداد وشمار کے مطابق رواں سال ضلع قصور میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 40 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ جن میں سے 11 بچوں اور 19 بچیوں کو جنسی بدفعلی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق چھ سال سے 10 سال تک کے سب سے زیادہ 10 بچے متاثر ہوئے۔ 11 سال سے 15 سال کے 10 بچے اور 16 سال سے 18 سال کے چھ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔
ساحل کے اعداد وشمار کے مطابق 40 میں سے 27 کیسز میں براہ راست یا بالواسطہ بچوں کے جاننے والوں نے بچوں کے ساتھ زیادتی کی۔
تحصیل چونیاں میں رواں سال جون سے ستمبر کے دوران چار بچوں محمد عمران، فیضان، علی حسنین اور سلمان اکرم کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔
اِن واقعات کے بعد چونیاں میں شہریوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی و قتل اور شہریوں کے احتجاج کی خبریں ذرائع ابلاغ میں آنے پروزیراعلٰیٰ پنجاب نے بچوں کے اغواء، زیادتی اور قتل کے واقعے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی تھی۔
قصور میں زیادتی کے بعد بچوں کے قتل کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال قصور کی آٹھ سالہ زینب کے قتل کے واقعے پر ملک بھر میں غم و غصّے کا اظہار کیا گیا تھا۔ قصور میں زینب کے علاوہ بھی بچوں کے اغوا اور قتل کے واقعات رونما ہوئے تھے۔
عمران نامی ملزم کو زینب کے قتل کا ملزم قرار دیا گیا جسے بعد ازاں پھانسی دے دی گئی تھی۔