بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1947 کے بعد پہلی مرتبہ یومِ شہدائے کشمیر پر حکومت نے کوئی سرکاری تقریب منقعد نہیں کی جب کہ کسی سرکاری عہدیدار نے بھی سرینگر کے خواجہ بازار میں واقع شہدا کے مزار پر حاضری نہیں دی۔
شہدا کے مزار پر عام لوگ بھی فاتحہ خوانہ نہیں کر سکے جب کہ روایت کے مطابق شہدا کی قبروں پر کسی نے گُل پاشی بھی نہیں کی کیوں کہ شہر کے بیشتر علاقوں میں کرونا وائرس کے کیسز میں حالیہ دنوں میں غیر معمولی اضافے کے پیشِ نظر لاک ڈاون دوبارہ نافذ کیا گیا ہے۔
شہدا کے مزار تک جانے والے تمام راستوں کو خار دار تاروں اور آہنی باڑ کے ذریعے بند کر دیا گیا تھا۔
مزار کے کمپلیکس، جہاں سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق رکھنے والے ایک صوفی بزرگ کی درگاہ، خانقاہ اور مسجد ہیں، کے مرکزی گیٹ اور عقبی دروازوں کو مقفل کر دیا گیا تھا جب کہ پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات کی گئی ہے۔
یومِ شہدا پر سرکاری تعطیل منسوخ
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ نے اس سال جنوری میں ایک متنازع فیصلے کے تحت شہدا کی یاد میں 13 جولائی کو منائی جانے والی سرکاری تعطیل ختم جب کہ 26 اکتوبر کو 'یومِ الحاق' پر سرکاری تعطیل منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ 26 اکتوبر 1947 کو ریاست کے حکمران ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔
نئی دہلی کے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری کو ختم اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے براہِ راست وفاق کے زیر کنٹرول علاقے بنانے کے چھ ماہ بعد یومِ شہدا پر سرکاری تعطیل ختم کرنے کا فیصلہ سامنے آیا تھا۔
اس کے علاوہ بھارت کی مرکزی حکومت نے گزشتہ 11 ماہ کے دوران کئی اور متنازع اقدامات کیے ہیں جن میں سب سے دور رس نتائج کا حامل یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر کے لیے نیا قانونِ اقامت قرار دیا جا رہا ہے۔ اس نئے ڈومیسائل لا کے تحت حالیہ ہفتوں میں جن ہزاروں لوگوں کو شہریت کی سند جاری کی گئی ہے۔ ان میں بڑی تعداد غیر مقامی افراد کی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ناقدین اسے مسلم اکثریتی ریاست کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی دانستہ کوشش قرار دے رہے ہیں۔
13 جولائی کی تاریخی اہمیت
13 جولائی 1931 کو مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج نے سرینگر کی مرکزی جیل کے باہر نہتے کشمیریوں پر گولیاں چلائی تھی جس کے نتیجے میں 22 شہری ہلاک ہوئے تھے۔
جیل کے باہر یہ لوگ ایک غیر مقامی شخص عبد القدیر خان پر بغاوت کے الزام میں چلائے جا رہے مقدمے کے سلسلے میں جمع تھے۔
عبدالقدیر کشمیر کی سیاحت پر آئے ہوئے ایک برطانوی شہری کے باورچی تھے۔ انہوں نے شہر کی خانقاہِ معلیٰ میں جمعے کے اجتماع سے خطاب میں کشمیری مسلمانوں کو مہاراجہ کی حکومت کے مبینہ ظلم و جبر کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کے لیے کہا تھا جب کہ مہاراجہ کے محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی ہر اینٹ اکھاڑ کر اسے زمین بوس کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ حکومت نے عبد القدیر کو گرفتار کرکے اُن پر غداری کے الزام میں مقدمہ چلایا تھا۔
سرینگر کی مرکزی جیل کے باہر پیش آنے والے واقعے کے پس منظر میں 13 جولائی کو یومِ شہدا منایا جاتا ہے جب کہ اس دن کشمیر کے دونوں حصوں میں خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔
ریاست کے باہر بھی بالخصوص پاکستان میں کشمیری اس دن کو بڑے احترام کے ساتھ مناتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
سیاسی نظریات کا تضاد
جموں و کشمیر میں حکومت کی طرف سے 13 جولائی کی چھٹی کو منسوخ کرنے پر کشمیریوں نے شدید ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی دانستہ کوشش قرار دیا تھا۔
ناقدین کے مطابق یہ اقدام قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی کشمیری مسلمانوں کی نفسیات پر وار کرنے کی ایک کڑی ہے۔
تاہم بی جے پی اور اس کی ہم خیال سیاسی جماعتوں کا استدلال ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ جموں و کشمیر کا جائز حکمران تھا جسے قبولِ عام حاصل تھا اور اُس کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت مذہبی اور علاقائی عصبیت پر مبنی تھی۔
جموں کے ڈوگرے بھی ہری سنگھ کو ایک فہیم، اعلیٰ تعلیم یافتہ، قابل اور انصاف پسند حکمران سمجھتے ہیں۔
13 جولائی کشمیری پنڈتوں کے لیے ٰیومِ سیاہٰ
کشمیر میں اقلیت میں موجود پنڈت فرقے کا الزام ہے کہ 89 برس پہلے ڈوگرہ حکمران کے خلاف کشمیری مسلمانوں کی طرف سے شروع کی گئی جدوجہد کے ساتھ ہی ان کی مشکلات شروع ہو گئی تھیں۔ 1990 میں مقامی مسلمانوں کی مسلح جدوجہد کے آغاز کے ساتھ ہی کشمیری پندٹوں کی اکثریت کشمیر چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ ان کی تنظیمیں 13 جولائی کو 'یومِ سیاہ' کے طور پر مناتی چلی رہی ہیں۔
سرینگر اور وادیٴٔ کشمیر میں نافذ لاک ڈاون اور مقامی سیاسی رہنماؤں پر 11 ماہ سے عائد پابندیوں کی وجہ سے علاقائی سیاسی جماعتیں اس موقعے پر کوئی جلسہ منعقد نہیں کر سکی ہیں۔ ان جماعتوں نے بیانات میں 13 جولائی 1931 کے شہدا کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا ہے جب کہ سرکاری تعطیل ختم کرنے سمیت حکومت کے دیگر اقدامات کی مذمت کی ہے۔
سرکاری اقدامات تاریخ نہیں بدل سکتے
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ﴿پی ڈی پی﴾ کے ایک رہنما اور سابق وزیر سید نعیم اختر اندرابی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرکاری کلینڈر کو تبدیل کرنے سے 13 جولائی 1931 کے جیالوں کے لیے عزت و احترام میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے بقول آزادی اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے ان شہدا سے جڑی یادوں کو تازہ کرتے رہیں گے۔
اس حوالے سے تجزیہ کار اور سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر نور احمد بابا نے کہا کہ موجودہ بھارتی حکومت کی پالیسی اور کشمیری مسلمانوں کے سیاسی نظریات میں تضاد ہے۔ جموں کشمیر پر اس وقت نئی دہلی کا براہِ راست کنٹرول ہے۔ مقامی انتظامیہ نے یوم شہدا کو سرکاری سطح پر منانے کا سلسلہ روک دیا ہے۔ یہاں تک کہ اس موقعے پر کی جانے والی تعطیل کو ختم کرکے اس دن کی اہمیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ان کے بقول اس سے نہ تو لوگوں کی نفسیات کو بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُن کے سیاسی عقائد کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں دو سال سے سیاسی اور جمہوری عمل متاثر ہو رہا ہے۔ سیاسی سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں۔
ان کے بقول عوامی سطح پر مزاحمت اور بد دلی قائم ہے جس کے مدِنظر مرکزی حکومت مدافعانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ یہاں کے لوگ اس کے ساتھ نہیں ہیں۔ اسی لیے یہاں کی لیڈر شپ کو پابندِ سلاسل کیا گیا ہے۔ عام لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کی جاتی رہی ہیں جب کہ انتظامی سطح پر کئی اقدامات اٹھائے گئے لیکن انہیں عوامی سطح پر پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔
انہوں نے کہا کہ 13 جولائی کے شہدا کے لیے لوگوں کے دلوں میں پائی جانے والی محبت کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس دن کی تاریخی اہمیت کو کم کیا جاسکتا ہے۔
شہداء کا مشن ابھی نامکمل ہے
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد 'کُل جماعتی حریت کانفرنس' نے 13 جولائی کو کشمیر میں عام ہڑتال کرنے کی اپیل کی تھی۔
کُل جماعتی حریت کانفرنس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ 13 جولائی1931 کو 22 کشمیریوں نے جس مقصد کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں وہ ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔
بعض دوسری آزادی پسند تنظیموں نے بھی اسی طرح کے بیانات دیے ہیں اور کہا ہے کہ 1931 کے شہداٴ کشمیر کی مکمل آزادی کے پرستار تھے ۔
جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کی تائید کرنے والی نیشنل کانفرنس اور دوسری ہم خیال جماعتوں کا اصرار ہے کہ ان شہدا نے شخصی راج کے مظالم، مسلم دشمن پالیسیوں، انتظامیہ کی کے امتیازی سلوک اور حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز بلند کی تھی۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم کا کشمیریوں کی حمایت کا اعلان
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 13 جولائی کی تعطیل ختم کرنے اور اس دن کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کے ردِ عمل میں ماضی کے مقابلے میں اس بار پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں یومِ شہدا زیادہ جوش و خروش سے منایا گیا۔
پاکستان اور بیرون ملک کشمیریوں اور پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے یومِ شہدا پر منعقد کی جانے والی تقریبات اور جلوسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کشمیریوں کو یقین دلایا کہ اُن کا ملک کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کی مکمل حمایت کرتا رہے گا۔
سوشل میڈیا پر متعدد ٹوئٹس میں عمران خان نے کہا کہ 13 جولائی 1931 کے شہدا آج کی کشمیری مزاحمت کے اسلاف و اجداد تھے۔
اُن کے بقول پاکستان اور پاکستانی عوام جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی اور جابرانہ قبضے کے خلاف جاری جدوجہد پر اہل کشمیر کو سلام پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 1931 کے شہدا کی اولادوں نے نسل در نسل آزادی کے لیے اپنی جانیں نچھاور کی ہیں۔ آج بھی وہ آبادیات سے مصنوعی چھیڑ چھاڑ ﴿ڈیموگرافک انجینئرنگ﴾ کے ذریعے کشمیریوں کو مٹانے اور ان کی شناخت ختم کرنے پر بضد نسل پرست ہندوتوا سرکار کے خلاف پوری جرات سے برسرِ پیکار ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ پوری قوت سے اہلِ کشمیر کے حق خود ارادیت کی حمایت کی ہے۔ جموں و کشمیر کی غاصبانہ بھارتی تسلط سے مکمل آزادی تک اس منصفانہ جدوجہد کی حمایت جاری رکھی جائے گی۔
ان کے بقول آزادی کا دن اب زیادہ دور نہیں ہے۔
بھارتی حکومت نے تاحال عمران خان کے اس بیان پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
نئی دہلی کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ کشمیر بھارت کا ایک اٹوٹ انگ ہے۔ جس کے ایک حصے پر پاکستان نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔
بھارتی حکومت میں شامل کئی وزرا اور حکمران بی جے پی کے رہنماؤں نے حالیہ مہینوں میں متعدد بار یہ کہا ہے کہ جموں و کشمیر کو بھارت کے قومی دھارے میں مکمل طور پر شامل کرنے کے بعد اب نئی دہلی میں نریندر مودی کی حکومت پاکستانی کشمیر کو اسلام آباد کے قبضے سے چھڑانے کا ارادہ رکھتی ہے۔