'امن و ترقی کے لیے دہشت گردی کے خلاف متحد' کے عنوان سے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا دو روزہ اجلاس نائجر کے دارالحکومت نیامی میں منعقد ہو رہا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اس اجلاس میں اپنے ملک کی نمائندگی کریں گے تاہم کانفرنس کے جاری ایجنڈا میں مسئلہ کشمیر شامل نہیں کیا گیا۔
او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمین نے اپنے جاری بیان میں کہا ہے کہ اس اجلاس میں فلسطین کا مسئلہ، تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ، اسلاموفوبیا اور مذہب کی بدنامی پر بات ہو گی۔
اس کے علاوہ غیر رکن ممالک میں مسلمان اقلیتوں اور برادریوں کی صورت حال، بین الاقوامی عدالت انصاف میں روہنگیا کیس کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ تہذیبوں، ثقافتوں اور مذاہب کے درمیان مکالمے کو فروغ دینے اور دیگر ابھرتے ہوئے معاملات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
تاہم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ گزشتہ سال پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اسلامی ممالک کی تنظیم کا یہ پہلا اجلاس ہے۔
وزرائے خارجہ کے اجلاس کے ایجنڈے سے مسئلہ کشمیر کو شامل نہ کرنے کے معاملے کو تجزیہ کار پاکستان کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
او آئی سی 57 مسلم اکثریتی ممالک پر مشتمل تنظیم ہے جس کا مقصد مسلم اُمہ کے باہمی مسائل کا حل اور آپس میں تعاون بڑھانا ہے۔
بھارت کی جانب سے گزشتہ سال پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے پاکستان اس معاملے پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے خصوصی اجلاس کا مطالبہ کرتا آ رہا ہے۔
پاکستان کے مطالبے کے باوجود مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا خصوصی اجلاس نہیں بلایا گیا، جس کی وجہ سعوی عرب کی جانب سے اسلام آباد کے اس اقدام کی حمایت حاصل نہ ہونا ہے۔
پاکستان کی بار بار خواہش اور اصرار کے باوجود او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس نہ بلانے پر پاکستان اس سے قبل بھی مختلف مواقع پر تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔
سابق سفارت کار نجم الثاقب کہتے ہیں کہ او آئی سی نہ صرف مسلمانوں بلکہ پاکستان کے لئے ایک بہت قیمتی پلیٹ فارم ہے جہاں ہر موقع پر مسئلہ کشمیر پر حمایت ملتی رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس کے ایجنڈا میں کشمیر کا ذکر نہیں ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کانفرنس کے مختلف مرحلوں میں اس اہم مسئلے پر بات ضرور ہو گی۔
پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری اگرچہ وزیر اعظم عمران خان کے کوالالمپور سمٹ میں شرکت کے اعلان کے بعد پیدا ہوئی، تاہم اس میں مزید کیچھاؤ اس وقت آیا، جب اگست میں وزیر خارجہ شاہ محمود نے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی کے کردار پر سوال اٹھایا تھا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ وہ ایک مرتبہ پھر او آئی سی سے کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان توقع رکھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلا تاخیر بلایا جائے گا۔
وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ "اگر او آئی سی کونسل آف فارن منسٹرز (یعنی رکن ممالک کے وزرائے خارجہ) کا اجلاس نہیں بلا سکتی تو وہ مجبوراً وزیرِ اعظم سے کہیں گے کہ وہ مسلم ممالک جو کشمیر کے معاملے پر ہمارے ساتھ ہیں، اُن کا اجلاس بلا لیں۔ چاہے وہ او آئی سی کے فورم پر ہوں یا نہ ہوں۔"
نجم الثاقب کہتے ہیں کہ کوالالمپور سمٹ اور وزیر خارجہ کے او آئی سی کے کشمیر پر کردار کے حوالے سے بیان کے بعد بعض عرب ممالک کے ساتھ پیدا شدہ غلط فہمیاں دور کرنے کے لئے یہ کانفرنس ایک موقع ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی وزیر خارجہ کا نائجر جانا بتاتا ہے کہ اس کا اچھا نتیجہ نکلے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر خطے کے تناظر میں دیکھا جائے تو یمن اور شام کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملے نے مسلم دنیا میں دراڑیں ڈال دی ہیں اور مسلم امہ اس وقت ایک نئے سانچے میں ڈھل رہی ہے جس کی حتمی شکل کے لئے کچھ انتظار کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا پاکستان کا موقف واضع ہے کہ وہ مسلم ممالک کے باہمی خلفشار میں فریق نہیں بنے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں اس بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ مسئلہ کشمیر او آئی سی کے مستقل ایجنڈے پر موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ تنظیم، کشمیر کے مسئلے پر عشروں سے کام کر رہی ہے، جس کا ثبوت کانفرنس اور وزرائے خارجہ کونسل کی قراردادیں ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ او آئی سی سیکرٹریٹ کی طرف سے وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے بیانات میں تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا جاتا رہا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے امید ظاہر کی کہ اجلاس کا احتتام پر او آئی سی کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے لئے مضبوط حمایت کے اعادہ کا اظہار کیا جائے گا۔
دوسری جانب نائجر روانہ ہونے سے قبل وزیرِخارجہ قریشی نے کہا کہ کانفرنس میں مسئلہ کشمیر اور فلسطین پر دیگر وزرائے خارجہ سے تبادلۂ خیال کا موقع ملے گا، کچھ قرار دادیں اس اجلاس میں پیش کرنے کا ارادہ ہے، اہم منصبوں پر دو طرفہ ملاقاتوں اور پاکستان کا مؤقف پیش کرنے کا موقع بھی ملے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں ظلم و بربریت پر آواز اٹھانے کیلئے یہ ایک مناسب فورم ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق او آئی سی کی بہت سی قرار دادیں موجود ہیں۔ اجلاس کو کشمیر کی تازہ صورتِ حال سے آگاہ کرنا میرے فرائض میں شامل ہے۔